تکبر ایک باطنی مرض ہے،
جس کی وجہ سے انسان بہت ساری برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اچھائیوں سے محروم
ہوجاتا ہے، تکبر کی وجہ سے معلم الملکوت (یعنی فرشتوں کے استاد) کا
رتبہ پانے والے ابلیس نے خدا رحمن کی نافرمانی کی اور اپنے مقام و منصب سے محروم
ہو کر جہنمی قرار دیا۔
تکبر
کی تعریف:
تکبر
کے لغوی معنی بڑائی چاہنا، اصطلاح میں تکبر سے مراد خود کو افضل، دوسروں کو حقیر
جاننے کا نام تکبر ہے۔
امام
راغب اصفہانی رحمۃ
اللہ علیہ
لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات
الراغب، 698)
تکبرکا
نقصان:
تکبر
لذّتِ نفس وہ بھی چند لمحوں کے لئے، جب کہ انسان اس کے نتیجے میں اللہ اور رسول پاک و صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ناراضگی، مخلوق کی بیزاری، میدانِ محشر میں ذلت
و رسوائی ہے، ربّ پاک کی رحمت اور انعاماتِ
جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے۔
اب
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ چند لمحوں کی لذت چاہئے یا ہمیشہ کے لئے جنت، میدانِ
محشر میں عزت چاہئے یا ذلت، یقیناً ہم خسارے میں نہیں رہنا چاہیں گے تو ہم کو چاہئے
کہ ہم اس مرض کو اندر سے ختم کریں، اس مرض کو ختم کرنے کے لئے کوشاں رہیں، اس مرض
کو ختم کرنے کے لئے اپنا محاسبہ کریں۔
تکبر
کے مرض پر ابھارنے والے اسباب:
اس
مرض پر ابھارنے والے آٹھ ا سباب ایسے ہیں، جو اس کو تکبر پر ابھارتے ہیں، ٭ علم، ٭عبادت،
٭مال و دولت، ٭حسب و نسب، ٭عہدہ و منصب، ٭کامیابیاں، ٭حسن و جمال، ٭طاقت و قوت۔
تکبر
کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:
1۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت فرماتے ہیں، حضور
پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی
تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم
الکبر وبیانہ، ص60، حدیث148)
2۔شہنشاہِ
خوش خصال، پیکرِ حسن و جمال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم
فرماتے ہیں:اللہ پاک متکبرین کی طرح چلنے
والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال الاخلاق، قسم الاقوال،
جلد 3، صفحہ 210، حدیث8828)
3۔اللہ
کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن ا لعیوب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند
لٹکائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر
نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب من جرثوبہ من الخیلاء، جلد 4، صفحہ 46، حدیث
5788)
4۔سیّد
المرسلین، خاتم النبیین، جناب رحمۃ اللعالمین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس کو یہ خوشی ہو کہ لوگ میری
تعظیم کیلئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (جامع ترمذی، کتاب الادب،
ج4، ص348، حدیث2864)
5۔
نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نےفرمایا:ربّ پاک فرماتا ہے ہے کہ کبریائی
میری چادر ہے، لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا کرے گا، میں اسے پاش
پاش کر دوں گا۔ (مرآۃ
المناجیح، ج6، ص659)
اس
حدیث مبارکہ میں ربّ تعالیٰ کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا، ہمیں سمجھانے کے لئے
ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے
دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی۔
اس
باطنی مرض سے بچنے کے لئے اپنا محاسبہ کیجئے کہ کل جب حشر ہوگا اور ہر ایک اپنے کئے
کا حساب دے گا تو مجھے بھی حساب اپنے ربّ پاک کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا دینا پڑے گا،
اس وقت میں انتہائی عجز، ذلت اور بے بسی کی
جگہ پر ہوں گا، اگر میرا ربّ مجھ سے ناراض ہوا تو میرا کیا ہوگا، اگر تکبر کے سبب
مجھے جہنم میں پھینک دیا گیا تو وہ ہولناک عذاب کیوں کر برداشت کر پاؤں گا؟
اس
طرح تصور میں عذاب کو یاد کرنے کی وجہ سے انکساری پیدا ہوگی، ان تمام باتوں کو سوچ
کر ان شاءاللہ تکبر دور ہو جائے گا اور
بندہ خود کو اللہ پاک کی بارگاہ میں فقیر
اور عاجز خیال کرے گا۔
گناہوں
کی عادت چھڑا یا الہی
مجھے
نیک انسان بنا یا الہی