خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر
ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَھَنَّمَ
دَاْخِرِیْنَ۔(سورۃ غافر، آیت20) ترجمہ:جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، جلد ہی وہ
رسوا ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے۔
فرامینِ
مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:
1۔
بدترین شخص:
تکبر کرنے والے کو بد ترین شخص قرار دیا گیا،
چنانچہ حضرت سیدنا حذیفہ رضی الله عنہ ارشاد فرماتے
ہیں کہ ہم حضور اکرم ،نورِ مجسم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد
اخلاق اور متکبر ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، الحدیث 23517، ج9،
ص120)
2۔قیامت میں رسوائی:
تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی
کا سامنا ہوگا، چنانچہ حضور اکرم، نور مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی
شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں
جہنم بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا، انہیں طِیْنَۃُ الَخبَال
یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب
ماجاء فی شدۃ الخ، الحدیث250، ج4، ص221)
3۔ مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا متکبر کے لئے اظہارِنفرت:
سرکار مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک قیامت کے دن
میرے نزدیک سب سے
قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق
اڑانے والے اور مُتَفَیْھِقْ ہیں، صحابہ
کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے
والوں کو تو ہم نے جان لیا، مگر یہ مُتَفَیْھِقْ کون ہیں؟ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر
کرنے والا شخص ہے۔ (جامع
الترمذی، ابواب البر والصلۃ، الحدیث 2020، ج3، ص410)
4۔ جنت میں داخل نہ ہو سکے گا:
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت، شمع بزمِ ہدایت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی
کے دانے جتنا )یعنی تھوڑا سا (بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبرو بیانه،
الحدیث 147، ص60)
5۔آباء و اجداد پر فخر مت کرو:
تاجدارِرسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہئے، کیونکہ
وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی، جو اپنی
ناک سے گندگی کو کریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم
سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے
آباء پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہوگا یا بدبخت و بدکار، سب
لوگ حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ و السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الحدیث 3981، ج5،
ص497)
صرف لفظ ”مَیں“ ہی تکبر کی علامت نہیں، بلکہ کئی
نشانیاں ہیں، امیر کا غریب کو حقیر جاننا امیر کے دل میں تکبر لاتا ہے، اعلیٰ
شخصیت کا عام آدمی کو اپنے سے کم تر سمجھنا، اعلیٰ شخصیت میں تکبر لاتا ہے، اللہ
پاک ہمیں تکبر جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ عاجزی
اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین