جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک ”تکبر“ بھی ہے ۔ تکبر سے مراد ”خودکو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننا“ ہے۔ چنانچہ رسول اکرم نورِمجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:  تکبرحق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحريم الكبروبيانہ، حدیث : 91، ص61)

تکبر کرنے والے کی مثال اس غلام کی سی ہے کہ جو بادشاہ کے سامنے اس کا تاج پہن کر اس کے تخت پر بیٹھ جائے اور اس وجہ سے بادشاہ کو شدید غصہ آئے اور وہ غلام سخت ترین سزا کا مستحق ہو جائے۔ اسی طرح اگر کوئی اللہ پاک کی صفتِ کبریائی کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش بھی کرے گا تو سزا کا حقدار بنے گا۔ چنانچہ نبی اکرم نورمجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے۔ لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرك للحاكم ، كتاب الايمان، باب اهل الجنۃ المغلوبون۔۔الخ،1/235،حدیث: 210)

تکبر عزازیل راخوار کرد

بزندان لعنت گرفتار کرد

ترجمہ : غرور و تکبر نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا اور لعنت کے طوق میں گرفتار کیا۔

مفسر شہیر ، حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں : کبر سے مراد ذاتی بڑائی ہے اور عظمت سے مراد صفاتی بڑائی۔ چادر فرمانا ہم کو سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔(مرأة المناجیح، 6/ 659)

تکبر کی مذمت پر کئی احادیثِ مبارکہ موجود ہیں جن میں سے 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں :

(1) جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہیں ہو گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب تحريم الكبر وبیانہ ، ص 21 ، حدیث : 91)

(2)آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبّار (سرکش) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچتا ہے ۔(سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء في الكبر، 3/ 403، حدیث: 2007)

(3)بد تر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبار کو بھول جائے۔(سنن الترمذی، کتاب صفۃ القيامۃ، 4/ 203، حدیث: 2452 بتغير قليل)

(4)قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ”بُولَس “نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/221، حدیث: 2500)

(5) سخت مزاج ، اترا کر چلنے والا، متکبر ، خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جبکہ اہل جنّت کمزور اور کم مال والے ہیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص ، 2/ 272، حدیث : 7030)

جس طرح ظاہری امراض جان لیوا ثابت ہو جاتے ہیں اسی طرح باطنی امراض ایمان لیوا ثابت ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک تکبر بھی ہے اسی لیے اسکا علاج بھی انتہائی ضروری ہے۔ تکبر کے علاج کی دو صورتیں ہیں: (1) علمی علاج: اس سے مراد انسان اللہ پاک کی معرفت حاصل کرے کہ یہ ذات کتنی عظمت و بڑائی والی ہے اور اپنے آپ کو پہچانے کہ خود کتنا ذلیل و حقیر ہے۔ یہ سوچ و فکر تکبر کا خاتمہ اور عاجزی و انکساری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔(2) عملی علاج : تکبر کا خاتمہ اللہ پاک کی رضا کے لیے تمام تر عاجزی والے اعمال کرنے میں بھی پوشیدہ ہے۔ لہٰذا ہر وہ کام جس میں تکبر کا شبہ بھی ہو تو اس کے برعکس کام کو بطورِ عاجزی لازم کر لیا جائے یہاں تک کہ نفس عاجزی کا پابند ہو جائے ۔ان علاجوں کو اختیار کرنے سے ان شاءاللہ آہستہ آہستہ تکبر کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں تکبر اور اس جیسے تمام تر باطنی امراض سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حقیقی عاجزی و انکساری عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم