اللہ پاک نے حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام کی پیدائش
کے بعد تمام فرشتوں اور شیطان کوحکم دیا کہ اِن کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے
حکمِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ فرشتوں میں سے سب سے پہلے سجدہ کرنے والے حضرتِ سیِّدُنا جبرائیل پھر حضرتِ
سیِّدُنامیکائیل ، حضرتِ سیِّدُنا اِسرافیل پھر حضرتِ سیِّدُنا عِزرَائیل پھر دیگر
مقرَّب فرشتے(علیہم السلام) تھے۔ مگر اِبلیس نے انکار کردیا اور تکبر کر کے کافِروں میں سے ہوگیا۔ جب اللہ
پاک نے اِبلیس سے اس کے اِنکار کا سبب دریافت فرمایا تو تکبر کر کہنے
لگا : اَنَا خَیْرٌ
مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجمہ کنزالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے
بنایا اور اس ے مٹی سے بنایا (پ8،الاعراف:12) اللہ ربُّ العزت نے اِبلیس کو اپنی بارگاہ سے
دُھتکارتے ہوئے اِرشاد فرمایا : قَالَ فَاخْرُ جْ
مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان : فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بےشک تجھ پر میری
لعنت ہے قیامت تک ۔(پ23 ، صٓ : 77، 78)
جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک تکبر بھی ہے جس کا عِلم سیکھنا فرض ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد
رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں : مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ(یعنی باطنی ممنوعات) مَثَلاً تکبر و
رِیا وعُجب وحَسَد وغیرہا اور اُن کے مُعَالَجَات(یعنی عِلاج) کہ ان کا عِلم (یعنی
جاننا)بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ۔(فتاوٰی رضویہ مخرجہ، 23/624)
تکبر کسے کہتے ہیں ؟: خُود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔چنانچہ رسولِ اکرم نُورِ
مجسّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ
النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نا م
ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث : 91، ص61) اِمام
راغب اِصفہانی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ
نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ۔یعنی تکبر یہ ہے
کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المُفرَدات للرّاغب ص697) متکبر
کا دل عاجزی جیسی نعمت سے محروم رہ جاتا
ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے حالانکہ انسان کی اصل بھی مٹی
اور آخر بھی مٹی ہے تو پھرتکبر کس بات پر کرنا ۔
5 فرامین مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1) بد ترین شخص: تکبر کرنے والے کو بدترین شخص قرار دیا گیا ہے چنانچہ
حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ ارشاد
فرماتے ہیں کہ ہم آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں
شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں
نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے
بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بوسیدہ لباس پہننے والا
شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری
فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)
(2)قیامت میں رُسوائی: تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت ورُسوائی کا
سامنا ہوگا ، چنانچِہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے
گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا
اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر
ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ
الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب
ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(3) ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکانا:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب
اللباس، باب من جرثوبہٗ من الخیلائ، 4 /46،
حدیث: 5788)
اسی لیے ہمیں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت پر عمل کرنا چاہیے وہ یہ کہ ٹخنوں سے
شلوار کو اونچا رکھے ۔امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ ایک مدنی مذاکرے میں
ارشاد فرماتے ہیں کہ تم کس کس کو بتاؤں گے کہ میں تکبر کی وجہ سے شلوار کو نیچے نہیں کر رہا لہذا سنت پر عمل کرنا چاہیے ۔
(4)جنّت میں داخِل نہ
ہوسکے گا: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس کے
دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ
ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، ص60، حدیث : 147) حضرتِ علّامہ مُلّا علی قاری علیہ رحمۃُ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتے گا یا اللہ پاک کے عَفْو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت
میں داخِل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر، 8/828، 829)
(5) اپنا ٹھکانہ جہنَّم
میں بنا لے:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لیے
کھڑے رہیں ، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔(جامع الترمذي، کتاب الادب، 4/347،حدیث
: 2764)
متکبر کو چاہیے کہ وہ شیطان کے انجام سے ہی عبرت حاصل کریں کہ بہت بڑا فرشتوں کا
استاد ہونے کے باوجود تکبر کی وجہ سے کافر ہوا اور ان روایات سے سبق حاصل کرے اور تکبر کرنے سے رک جائیے ۔
اسی درخت کو پھل زیادہ لگتا جو جھکا رہتا
ہے اسی طرح انسان کو چاہیے کہ عاجزی اختیار کرے اور رب کے ہاں خوف اور ڈر کرے تو آخرت میں جنّت میں ہمیشہ رہے ورنہ تکبر
کرنے کی وجہ جہنم میں جائے گا۔ متکبر کو اپنی پیدائش کی حقیقت کی طرف نظر کرنی چاہیے کہ انسان کی حقیقت ایک گندا پانی ہے۔