گناہ عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں: ظاہری یا باطنی اور ان میں سے باطنی گناہ زیادہ ہلاک کن ہے۔ کیونکہ آدمی عموماً ظاہری گناہ کو تو جان لیتا ہے لیکن باطنی بیماری کو محسوس بھی نہیں کرتا لہذا ہمارے لیے ان گناہوں کی معلومات ضروری ہے تاکہ ہم ان سے بچ سکیں۔ ویسے تو باطنی گناہ بہت سے ہیں مگر ان میں سے تکبر بہت ہلاک کن ہے آئیے پہلے تکبر کو جاننے کے لیے پہلے اس کی تعریف ملاحظہ کیجیے پھر اس کی مذمت میں احادیث کا مطالعہ کیجیے تاکہ ہم اس باطنی گناہ سے بچنے میں کامیاب ہو سکیں۔

تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) جس کے دل میں تکبر ہو اسے متکبر کہتے ہیں۔

(1) بد ترین شخص: حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ ہم دافِعِ رنج و مَلال، صاحِب ِجُودو نَوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بَوسیدہ لباس پہننے والا شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)

(2) شَہَنْشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عبر ت نشان ہے : اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)

(3) قیامت میں رُسوائی: سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(4)جنّت میں داخلہ نہ ہو سکے گا: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)

(5) خِنزیر سے بدتر: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جواللہ پاک کے لئے عاجِزی اختیار کرے،اللہ پاک اس ے بُلندی عطا فرمائے گا، وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوگااور جو تکبر کرے اللہ پاک اس ے ذلیل کر دے گا، وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خُود کو بڑا سمجھتاہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کُتّے اور خِنزِیر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔(کنزالعمال کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال، 2/50، حدیث:5734)