غلام نبی عطّاری (درجہ سابعہ،جامعۃ المدینہ آفندی
ٹاؤن حیدرآباد، پاکستان)
تکبر ایسی ہلاکت خیز باطنی بیماری ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی
بُرائیوں کو لاتی ہے اور اچھائیوں سے محروم کردیتی ہے ، چُنانچِہ امام محمد بن
محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : متکبر شخص جو کچھ اپنے لئے پسند
کرتا ہے اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند نہیں کرسکتا ، ایسا شخص عاجزی پر بھی قادر
نہیں ہوتا جو تقویٰ و پرہیزگاری کی جَڑ ہے ، کینہ بھی نہیں چھوڑ سکتا ، اپنی عزت
بچانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ، اس جھوٹی عزت کی وجہ سے غصہ نہیں چھوڑ سکتا ، حسد سے
نہیں بچ سکتا ، کسی کی خیرخواہی نہیں کرسکتا ، دوسروں کی نصیحت قبول کرنے سے محروم
رہتا ہے ، لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے الغرض متکبر آدمی اپنا بھرم رکھنے کے
لئے ہر بُرائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔ (احیاء
العلوم ، 3 / 423 ملخصاً)
تکبر کی ابتدا:سب سے پہلے تکبر شیطان نے کیا۔ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام
کی پیدائش کے بعد تمام فرشتوں اور اِبلیس (شیطان)کوحکم دیا کہ اِن کو سجدہ کریں
تو تمام فرشتوں نے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔مگر اِبلیس نے انکار کردیا۔
جب اس کے اِنکار کا سبب دریافت فرمایا تو
اَکڑ کر کہنے لگا : قَالَ
اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۷۶) ترجمہ کنزالایمان: میں اِس سے بہتر ہوں کہ تُو نے مجھے آگ
سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔(پ23 ،سورہ صٓ:76) اِس سے اِبلیس کی فاسِد مُراد یہ تھی کہ اگر حضرتِ سیِّدُنا
آدم علیہ السّلام آگ سے پیدا کئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں انہیں
سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ ان سے بہتر ہوکر اِن کو سجدہ کروں (معاذ اللہ عزوجل)۔ اِبلیس
کی اِس سرکشی، نافرمانی اور تکبر پر اس کی
حسین صورت ختم ہوگئی اور وہ بدشکل رُوسیاہ ہوگیا ،اس کی نُورانیت سَلْب کر لی گئی ۔(تفسیر خزائن
العرفان،ص824ملخصاً)
اللہ ربُّ العزت نے اِبلیس کو اپنی بارگاہ سے دُھتکارتے ہوئے اِرشاد فرمایا : قَالَ فَاخْرُ جْ
مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان : فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بےشک تجھ پر میری
لعنت ہے قیامت تک ۔(پ23 ، صٓ : 77، 78)
تکبر واقعی بہت بری صفت ہے جو بند کو کہی کا نہیں چھوڑتی۔
تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر
ہے ۔ چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر
بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61)
اب آئیے موضوع کی
مناسبت سے تکبر کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٰ پڑھتے
ہیں:۔
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :ایک شخص
اپنی چادر اوڑھے اکڑ کے چل رہا تھا اور اسے اپنا آپ بڑا پسند آیا اللہ پاک نے اسے
زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔( 2… مسلم، کتاب
اللباس، باب جرالثوب خیلا ...الخ ، ص 1155، حدیث :2085)
(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک دن اپنا لُعابِ
دَہَن اپنی مبارک ہتھیلی پر ڈالا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر ارشاد فرمایا کہ
اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:اے ابْنِ آدم! کیا تو مجھے عاجز کرے گا؟ حالانکہ میں نے
تجھے اس جیسی چیز (یعنی نطفے)سے پیدا فرمایا ہے، جب میں نے تجھے تندرست پیدا کیا
تو تُو دو چادروں میں(اکڑ کر)زمین کو روندھتے ہوئے چلنے لگا، تونے مال جمع کیا اور
خَرْچ کرنے سے باز رہا پھر جب رُوح حلق تک پہنچی تو کہنے لگا:میں صدقہ کرتا ہوں۔ صدقہ دینے کا یہ کون سا وقت ہے؟ (سنن
ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب النھی عن الامساک...الخ ،3/ 307، حدیث :2707)
(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک قیامت
کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اَخلاق میں
سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری
مجلس سے دُور وہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے ، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں ۔
صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یا
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اورلوگوں کا مذاق اُڑانے
والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہیں ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا
: اِس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جامع الترمذی، ابواب البر
والصلۃ ،3/410، حدیث : 2025)
نہ اُٹھ سکے گا قیامت تلک خدا عزوجل کی قسم
کہ جس کو تُو نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا
(4) حضرت سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ
جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا
(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب
الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ
رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں
داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے
ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک
کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب
الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)
(5) حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان
ہے : جو اللہ عزوجل کے لئے عاجزی اختیار کرے اللہ عزوجل اسے بلندی عطا فرمائے گا،
پس وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہو گا اور جو تکبرکرے
اللہ عزوجل اسے ذلیل کر دے گا، پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہو گامگرخودکو بڑا
سمجھتاہو گا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہو
جاتاہے۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال، 3/50،حدیث:5734)
غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو
عظمت و سربلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے، ہاں ! ذلّت کی پستیوں میں ضرور گرایا ہے۔
حضرت سیدنا حسن
رضی اللہ عنہ نے ایک امیر کو متکبرا نہ چال چلتے ہوئے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ اے
احمق!تکبر سے اِتراتے ہوئے ناک چڑھا کر کہا ں دیکھ رہا ہے ؟ کیا ان نعمتوں کو دیکھ
رہا ہے جن کا شکر ادا نہیں کیا گیا یاان نعمتوں کو دیکھ رہا ہے کہ جن کا تذکرہ
اللہ پاک کے احکام میں نہیں۔ جب اس نے یہ بات سنی تو عذر پیش کرنے حاضر ہوا تو آپ
رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :مجھ سے معذرت نہ کربلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں
توبہ کر کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ فرمان نہیں سنا:﴿وَ لَا تَمْشِ فِی
الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ
طُوْلًا(۳۷)﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور زمین میں اتراتا نہ چل بے شک ہرگز
زمین نہ چیر ڈالے گا اور ہر گز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا۔(پ15، بنی اسرائیل:37)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تکبر و غرور سے بچائے
اور عاجزی و انکساری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم