تکبر بہت ہی بری چیز ہے۔ اور ایسے شخص کو اللہ رب العزت پسند نہیں فرماتا ہے۔تکبر اپنے آپ کو بڑا اور دوسرے کو اپنے سے حقیر جاننا ہے۔ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِتکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ اور یہ ایک ایسی بیماری ہے۔ جو لوگوں کو مال و دولت ،خوبصورتی، زیادہ طاقتور ہونے، زیادہ علم ہونے، زیادہ نماز و روزہ کرنے ، کی وجہ سے زیادہ آتا ہے۔ تکبر انسان کو کہی کا نہیں چھوڑتا ۔ یہی تکبر انسان کو ایمان بھی چھین لیتا ہے۔ تکبر کی وجہ سے انسان اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ تبکر و غرور کی وجہ سے انسان نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت سے محروم رہتا ہے۔ جبکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی بارگاہ میں عاجزی اور انکساری ایمان کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ کفار لوگوں نے کیا ہے جب بھی کسی نبی و رسول کو اللہ تبارک و ٰ دنیا میں بھیجا ہے تو کفار لوگ اسے انکار ہی کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم لوگ تو اس سے زیادہ مالدار ہے یہ نہایت ہی مفلس ہے یہ نبی کیسے ہو سکتا ہے وہ انبیائے کرام کو بھی اپنے سے کمتر سمجھا اور ہمیشہ اپنی طرح بشر ہی کہتا رہا ہے۔ تکبر و غرور کی وجہ سے مسلمانوں کی تمام تر عبادت و ریاضت سب برباد ہو جاتا ہے ۔ آپ نے سونا ہوگا ابلیس کتنے بڑے عابد و زاہد تھا لیکن حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنے سے حقیر جانا۔ اور اللہ کا فرمان ماننے سے انکار کر دیا ۔ جس کی وجہ سے اللہ نے اسے مردود کر کے جنّت سے باہر کر دیا۔ اور اس کے تمام عمال برباد ہو گیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح بہت سے اسباب ایسے ہیں جن سے بندے کو اللہ پاک کی رحمت و مغفرت حاصل ہو تی ہے اسی طرح بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں جن سے بندہ اللہ پاک کے شدید اور دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے ،ان میں سے ایک سبب تکبر بھی ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ کی رحمت سے محروم اور عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) تفسیر صراط الجنان میں ہے : یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک ان کے دلوں کے انکار اور ان کے غرور و تکبر کو جانتا ہے، بے شک اللہ پاک مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: 23، 5 / 24)

تکبر کی تعریف: یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مومن ہو یا کافر، اللہ پاک اسے پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث: 147(

تکبر کرنے والوں کا انجام:قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ ترجمعہ ٔ کنزالایمان :اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیں ۔(پ9 ، الاعراف: 146) اور ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر ۔(پ24، المؤمن:60)

اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے ، رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن مردوں کی صورت میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے بُوْلَس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں طِیْنَۃُ الْخَبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی ( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/221، حدیث: 2500)

حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کوروندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، 2/ 578، حدیث: 224)

حضرت محمد بن واسع رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :میں حضرت بلال بن ابو بردہ رضی اللہُ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا :اے بلال ! آپ کے والد نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی ہے وہ اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ) سے اور وہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے ہیں ، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔ اے بلال! تم اس میں ٹھہرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، 6 / 207، حدیث: 7213)

تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر کا شکار ہوتا ہے تو نصیحت قبول کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے ،چنانچہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ منافق کے بارے میں فرمایا گیا: وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ(۲۰۶) ترجمۂ کنزالعرفان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔(پ2،البقرۃ:206)

امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : تکبر کی تین قسمیں ہیں: (1)وہ تکبر جو اللہ پاک کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللہ پاک کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔(2)وہ تکبر جو اللہ پاک کے رسول کے مقابلے میں ہو ،جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے ،ہماری ہدایت کے لئے اللہ پاک نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔(3)وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے ،حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، 2 / 707)

تکبر کی تینوں اقسام کا حکم: اللہ پاک اور اس کے رسول کی جناب میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔

تکبر کا ثمرہ اور انجام:اس آیت میں نا حق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا جو انجام بیان ہوا کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں تو بھی وہ ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنا لیتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ غرور وہ آگ ہے جو دل کی تمام قابلیتوں کو جلا کر برباد کر دیتی ہے خصوصاً جبکہ اللہ پاک کے مقبولوں کے مقابلے میں تکبر ہو۔ اللہ پاک کی پناہ۔ قرآن و حدیث سے ہر کوئی ہدایت نہیں لے سکتا، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ بہت سے لوگوں کو اس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔(پ1،البقرۃ:26)

اللہ پاک سے تکبر کرنا۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر ۔(پ24، المؤمن:60)

اترا کر چلنے والے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ(۱۸) ترجمۂ کنز الایمان: اور کسی سے بات کرنے میں اپنا رخسارہ کج نہ کر اور زمین میں اِتراتا نہ چل بےشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا(پ21،لقمٰن:18)

آیت میں اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا گیا ،اس مناسبت سے یہاں اکڑ کر چلنے کی مذمت پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اکڑکر چلتا ہے،وہ اللہ پاک سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما، 2 / 461، حدیث: 6002) (2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جب میری امت اکڑ کر چلنے لگے گی اور ایران و روم کے بادشاہوں کے بیٹے ان کی خدمت کرنے لگیں گے تو اس وقت شریر لوگ اچھے لوگوں پر مُسَلَّط کر دئیے جائیں گے۔( ترمذی، کتاب الفتن، 4 / 115، حدیث: 2268)

اسی آیت سے معلوم ہو اکہ مال و دولت کی کثرت فخر ،غرور اور تکبر میں مبتلا ہونے کاایک سبب ہے۔امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ تکبر کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تکبر کا پانچواں سبب مال ہے اور یہ بادشاہوں کے درمیان ان کے خزانوں اور تاجروں کے درمیان ان کے سامان کے سلسلے میں ہوتا ہے، اسی طرح دیہاتیوں میں زمین اور آرائش والوں میں لباس اور سواری میں ہوتا ہے۔ مالدار آدمی، فقیر کو حقیر سمجھتا اور اس پر تکبر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو مسکین اور فقیر ہے، اگر میں چاہوں تو تیرے جیسے لوگو ں کو خریدلوں ، میں تو تم سے اچھے لوگوں سے خدمت لیتا ہوں ، تو کون ہے؟ اور تیرے ساتھ کیا ہے؟ میرے گھر کا سامان تیرے تمام مال سے بڑھ کر ہے اور میں تو ایک دن میں اتنا خرچ کردیتا ہوں جتنا تو سال بھر میں نہیں کھاتا۔

وہ یہ تمام باتیں اس لیے کرتا ہے کہ مالدارہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے جب کہ اس شخص کو فقر کی وجہ سے حقیر جانتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ فقر کی فضیلت اور مالداری کے فتنے سے بے خبر ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا اور وہ اس سے فخر و غرور کی باتیں کرتا رہتا تھا۔ (اس سے کہا) میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور افراد کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوں ۔(پ15،الکھف:34)

حتّٰی کہ دوسرے نے جواب دیا:اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ(۳۹)فَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جنّتكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ(۴۰)اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًاترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں مال اور اولاد میں کم دیکھ رہا ہے۔ تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں گرادے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔ یا اس باغ کا پانی زمین میں دھنس جائے پھر تو اسے ہرگز تلاش نہ کرسکے۔(پ15،الکھف:39 تا 41)

تو اس پہلے شخص کا قول مال اور اولاد کے ذریعے تکبر کے طور پر تھا، پھر الله پاک نے اس کے انجام کا یوں ذکر فرمایا:یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے کاش!میں نے اپنے رب کےساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔( پ15،الکھف:42) قارون کا تکبر بھی اسی انداز کا تھا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبر، 3 / 432)

تکبر کے دو علاج: تکبر کے برے انجام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک باطنی مرض ہے ،اس لئے جو اپنے اندر تکبر کا مرض پائے اسے چاہئے کہ وہ اس کا علاج کرنے کی خوب کوشش کرے ،اَحادیث میں تکبر کے جو علاج بیان کئے گئے ان میں سے دو علاج درج ذیل ہیں ۔

(1)اپنے کام خود کرنا: چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس نے اپنا سامان خود اٹھایا وہ تکبر سے بری ہو گیا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی التواضع، 6 / 292، حدیث: 8201)

(2) عاجزی اختیار کرنا اور مسکین کے ساتھ بیٹھنا: چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو، اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ بلند ہو جائے گا اور تکبر سے بھی بری ہو جاؤ گے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، 2 / 49، حدیث: 5722، الجزء الثالث)

مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر کا علاج:امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (مال و دولت،پیرو کاروں اور مددگاروں کی کثرت کی وجہ سے تکبر کرنا) تکبر کی سب سے بری قسم ہے ،کیونکہ مال پر تکبر کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنے گھوڑے اور مکان پر تکبر کرتا ہے اب اگر اس کا گھوڑا مرجائے یا مکان گرجائے تو وہ ذلیل و رُسوا ہوتاہے اور جو شخص بادشاہوں کی طرف سے اختیارات پانے پر تکبر کرتاہے اپنی کسی ذاتی صفت پر نہیں ، تو وہ اپنا معاملہ ایسے دل پر رکھتا ہے جو ہنڈیا سے بھی زیادہ جوش مارتا ہے، اب اگر اس سلسلے میں کچھ تبدیلی آجائے تو وہ مخلوق میں سے سب سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو خارجی اُمور کی وجہ سے تکبر کرتاہے اس کی جہالت ظاہر ہے کیونکہ مالداری پر تکبر کرنے والا آدمی اگر غور کرے تو دیکھے گا کہ کئی یہودی مال و دولت اور حسن وجمال میں اس سے بڑھے ہوئے ہیں ، تو ایسے شرف پر افسوس ہے جس میں یہودی تم سے سبقت لے جائیں اور ایسے شرف پر بھی افسوس ہے جسے چور ایک لمحے میں لے جائیں اور اس کے بعد وہ شخص ذلیل اور مُفلِس ہوجائے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان الطریق فی معالجۃ الکبر واکتساب التواضع لہ، 3 / 444)

اللہ پاک سب مسلمانوں کو مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

تکبر اور عاجزی سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے لئے کتاب ’’احیاء العلوم (مترجم)‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) جلد تین سے تکبر کا بیان ،اور کتاب ’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔