
طمع (لالچ) کی
تعریف: کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع
یعنی لالچ کہلاتا ہے۔
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ ہے
ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ
رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیرا ہے اور شح (یعنی
نفس کے لالچ)سے بچوکیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق
قتل کرنے اورحرام کام کرنے پرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث:
6576)
آئیے لالچ کے
متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
لالچ سے بچتے
رہو کیونکہ تم سے پہلی قو میں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہو ئیں، لالچ نے انہیں بخل پر
آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی
کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث:1698)
محبوب ربّ
العلمین ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: لالچ ایسی پھسلانے والی چٹان ہے جس پر علما بھی
ثابت قدم نہیں رہتے۔ (کنز العمال، 3/199، حدیث: 7579)
امیر المؤمنین
حضرت علیّ المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے: لالچ کی چمک دیکھ کر عقل
اکثر مار کھا جاتی ہے۔ آپ کا ہی فرمان ہے: مردوں کی عقل کو شراب بھی اتنا خراب
نہیں کرتی جتنا کہ لالچ کرتی ہے۔
غلاموں
کی تین اقسام: ایک
فلسفی کا قول ہے: غلام تین قسم کے ہوتے ہیں: حقیقی غلام، شہوت کا غلام اور لالچ کا
غلام۔
ایک بزرگ کا
قول ہے: جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ زندگی بھرآزاد رہے تو اسے چاہیے کہ اپنے دل
میں لالچ کو نہ بسائے۔
مال و دولت کی
ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم
کر دے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال و دولت کے لالچ میں پھسنے والا شخص نا کام و نامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب و کامران ہے۔
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! لالچ انسان کو اندھا کردیتی ہے، لالچ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، لالچ
کی نحوست کےسبب دل سے خوف خدا نکل جاتا ہے، لالچ کی وجہ سے انسان اپنوں کا دشمن بن
جاتا ہے، لالچ کے سبب بندہ لوگوں کے احسانات کو بھلا دیتا ہے، لالچ انسان کو غیبت،
چغلخوری، دل آزاری اور الزام تراشی پر ابھارتی ہے، لالچ فتنوں کو جگاتی ہے، لالچ
اچّھے برے کی تمیز بھلادیتی ہے،لالچ انسان کو ظلم پر ابھارتی ہے،لالچ بڑوں کے ادب
سے محروم کردیتی ہے،لالچ بھلائی اور خیر خواہی کا جذبہ ختم کردیتی ہے،لالچ انسان
کو مفاد پرستی سکھاتی ہے،لالچ انسان کے دلسے ہمدردی کا جذبہ نکال دیتی ہے۔
لہٰذا عقلمندی
اسی میں ہے کہ ہم لالچ اور دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے بچتے ہوئے قناعت اور
سادگی کو اپنائیں، یوں ہماری زندگی(Life) بھی پرسکون گزرے گی اور دنیا و آخرت میں
بھی ہمیں اس کی خوب خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
اللہ پاک ہمیں
لالچ سمیت دیگر امراض سے محفوظ فرمائے۔ آمین یارب العالمین

انسان کی
زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ انسانیت ہے۔ جو چیز مقام انسانیت کو محفوظ رکھنے اور
اسے بلند کرنے میں مدد کرتی ہے وہ انسانیت کے کمال کا ذریعہ کہلاتی ہے۔ مثلاً
انسانیت کی خدمت، خدمت کرنے والے کے مقام کو بڑھاتی ہے۔ اسی طرح کچھ ایسی گھٹیا
حرکات ہوتی ہیں جو انسان کو درجہ انسانیت سے گراتی ہیں ان میں سے ایک طمع یعنی
لالچ بھی ہے۔ آئیے لالچ کی تعریف ملاحظہ کرتی ہیں کہ لالچ کہتے کس کو ہیں۔ تعریف
کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 168)
لالچ ہمیشہ کی
غلامی ہے، یوں جس سے لالچ ہوتا ہے انسان اس کا بغیر زنجیر کے غلام بن جاتا ہے اس
کی خواہش اس کے گلے کا طوق بن چکی ہوتی ہے اور جب یہ لالچ عادت بن جائے تو پھر
ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔
مال و دولت کی
ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم
کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 168)
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور جس
پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہو تو وہی اس عادت سے بچ سکتا ہے۔ یہ عادت کس قدر
نقصان دہ ہے ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈروکیونکہ ظلم قیامت کااندھیراہے اورشح (یعنی نفس
کے لالچ)سے بچوکیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق قتل
کرنے اورحرام کام کرنے پر ابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث:
6576)
فرمانِ مصطفى
ﷺ: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ (ابو داود،
2/185، حدیث: 1298)
اور اس سے
بچنا کس قدر فائدہ مند ہے اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ مروی
ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کاطواف کررہے اور یہ
دعامانگ رہے تھے:اے اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔اس سے زائد وہ کچھ نہیں کہتے
تھے، جب ان سے اس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جب مجھے میرے
نفس کی حرص سے محفوظ رکھا گیا تو نہ میں چوری کروں گا، نہ زنا کروں گا اور نہ ہی
میں نے اس قسم کا کوئی کام کیا ہے۔ (تفسیر طبری، 12 / 42)
لالچ کے
نقصانات: لالچ انسان کو ابدی رنج و زحمت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ لالچ انسان کو ذلیل
و خوار کر دیتا ہے۔ مختلف گناہوں اور رذالت میں ملوث کر دیتی ہے، مثلاً جھوٹ،
خیانت، ظلم اور دوسروں کا مال غصب کرنا۔ اگر انسان چاہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلال و
حرام کردہ کو سامنے رکھ کر کام کرے تو کبھی بھی لالچ کے معاملہ میں کامیاب نہیں ہو
سکتا ہے۔ لالچ انسان کو اللہ سے دور کر دیتا ہے۔
لالچ
کے بعض اسباب:
مال و دولت کی محبت، بڑی اور لمبی امیدیں، خواہشات کی کثرت۔
لالچ
کا علاج:
صبر و قناعت اختیار کریں، دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں، مال و دولت کے آخرت میں
حساب دینے کے معاملے میں غوروفکر کریں۔ (گناہوں کی معلومات، ص 169)
اللہ تعالیٰ
ہم پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں نفس کے لالچ سے محفوظ فرمائے۔ آمین

انسانی فطرت
ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے حرص و لالچ جیسی برائیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے
لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ ان کے دینی و دنیاوی نقصانات سے مکمل طور پر آگاہ رہے
اور اپنے نفس کا جائزہ لیتا رہے۔چنانچہ لالچ اور حرص کی تعریف اور ان کے متعلق
حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
لالچ:کسی
چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حرص کا تعلق صرف مال ودولت کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ
حرص تو کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہوسکتی ہے، چاہے
مال ہو یا کچھ اور!چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو مال کا حریص کہیں گے تو مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے
کا حریص کہا جائے گااور نیکیوں میں اضافے
کے تمنائی کو نیکیوں کا حریص جبکہ گناہوں
کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا حریص کہیں گے۔
حضرت علامہ
عبدالمصطفے اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس،
مکان،سامان، دولت،عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی زیور، ص 111)
حرص فی نفسہ
بری شے نہیں اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال پر ہے،اگر حرص نیکیوں پر ہو تو
یہ قابلِ تعریف ہے اور اگر دنیا وی معاملات میں (بری نیت کے ساتھ) ہو تو یہ قابل
مذمت ہے لہذا دنیوی غرض سے بچتے ہوئے اخروی یعنی نیکیوں کا حریص بنناچاہیے۔
گناہوں
کی حرص سے بچنے کا نسخہ: گناہوں کی حرص سے بچنا بے حد ضروری ہے،
اس کے لئے سب سے پہلے گناہوں کی پہچان حاصل کیجئے، پھر ان کے نقصانات پر غور کیجئے
کیونکہ ہمارا نفس فائدے کی طرف لپکتا اور نقصان سے بھاگتا ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں
احساس ہوجائے کہ ہمیں گناہوں کی کیسی ہولناک سزا ملے گی تو ہم گناہ کے خیال سے بھی
بھاگیں۔حصول عبرت کے لئے مختلف گناہوں میں ملوث ہونے والوں کے لرزہ خیز انجام کی
حکایات پڑھنا بھی بے حد مفید ہے۔
مال
کی حرص کے متعلق حدیث مبارکہ:
اگر ابن آدم
کے پاس سونے کی ایک وادی ہو توچاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو
مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ سے توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول
فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث:
2417)
انسان فطرتاً
حریص ہے علامہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی
تنبیہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک ایسا بخل ہوتا ہے جو اسے حریص (لالچی) بناتا ہے
جیسا کہ اس کی خبر اللہ نے قرآن میں بھی دی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ
تَمْلِكُوْنَ خَزَآىٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ
الْاِنْفَاقِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠(۱۰۰) (پ
15، بنی اسرائیل: 100) ترجمہ
کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو
انہیں بھی روک رکھتے اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہوجائیں اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔ مکمل
پس یہ آیت ابن
آدم کے انتہائی حریص (لالچی) اور بخیل ہونے پردلیل ہے، ابن آدم اس پرندے سے بھی
زیادہ بخیل ہے جو ساحل سمندر پر اس خوف سے پیاسا مر جاتا ہے کہ کہیں پانی پینے سے
پانی ختم نہ ہو جائے اور اس کیڑے سے بھی زیادہ بخیل ہے جس کی خوراک مٹی ہے لیکن وہ
اس خوف سے بھوکا مر جاتا ہے کہ کہیں کھانے سے مٹی ختم نہ ہو جائے۔ (مرقاۃ
المفاتیح، 9/124، تحت الحدیث:5273)
دنیا کی محبت
تمام گناہوں کی جڑہے،یقینا دنیا کی زندگی تو بہت تھوڑی ہے جبکہ آخرت کی زندگی
ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ دنیا میں جتنا رہنا ہے اتنی دنیا کے
لئے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنی آخرت کے لئے تیاری کریں۔ الحمد للہ تبلیغ قرآن
و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں خوف خدا اور عشق
مصطفیٰ کے جام بھر بھر کے پلائے جاتے ہیں، آپ سے مدنی التجا ہے کہ دعوت اسلامی کے
مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے۔اللہ ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر اپنی
اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کی محبت ڈال دے۔ آمین

دنیا میں رہتے
ہوئے اللہ پاک نے انسان کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا اور زندگی گزارنے کے اسباب
مہیا کیے، کسی کو امیر بنایا تو کسی کو غریب ہر ایک کی حالت جدا ہے انسان کی فطرت
بہت مختلف ہے وہ کسی کو خوشی میں عیش میں دیکھے تو بہت کم ہوتا کہ وہ حسد نہ کرے
اس کے دل میں کہیں نہ کہیں لالچ آ ہی جاتا جو ایک باطنی مرض ہے جس کے بارے میں پتا
ہی نہیں چلتا مثلاً کسی کے پاس گاڑی دیکھ کر یا خوبصورت گھر دیکھ کر اس کی طرف
مائل ہو جانا اس کی تمنا کرنا یہ لالچ کا ہی سبب ہے جو بہت برا ہے اس سے بچنا
چاہیے ورنہ عذاب کا سبب نہ بن جائے گا۔ آئیے لالچ کی تعریف ملاحظہ کرتی ہیں کہ
لالچ کہتے کس کو ہیں۔
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (گناہوں
کی معلومات، ص 168)
لالچ بہت بڑا
باطنی مرض ہے جس سے لالچ ہوتا ہے انسان اس سے حسد کرتا ہے انسان کو اس چیز کی
خواہش ہوتی ہے اس کی خواہش اس کے ذہن میں ہوتی ہے اور جب یہ لالچ عادت بن جاتی ہے
اور وہ ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا ہے جس کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتا۔
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ ہے
ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ
رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیرا ہے اور شح (یعنی
نفس کے لالچ)سے بچوکیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق
قتل کرنے اورحرام کام کرنے پرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث:
6576)
فرمان مصطفىٰ
ﷺ: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ (ابو داود،
2/185، حدیث: 1298)
لالچ
کے نقصانات: لالچ
انسان کو ابدی رنج و زحمت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ لالچ انسان کو ذلیل و خوار کر
دیتا ہے۔ مختلف گناہوں اور رذالت میں ملوث کر دیتی ہے، مثلاً جھوٹ، خیانت، ظلم اور
دوسروں کا مال غصب کرنا۔ اگر انسان چاہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کردہ کو
سامنے رکھ کر کام کرے تو کبھی بھی لالچ کے معاملہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔
لالچ انسان کو اللہ سے دور کر دیتا ہے۔
لالچ
کے بعض اسباب:
مال و دولت کی محبت، بڑی اور لمبی امیدیں، خواہشات کی کثرت وغیرہ۔
لالچ
کا علاج:
صبر و قناعت اختیار کریں، دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں، مال و دولت کے آخرت میں
حساب دینے کے معاملے میں غوروفکر کریں۔ (گناہوں کی معلومات، ص 169)
آخر میں اللہ سے
دعا ہے کہ ہمیں لالچ جیسے باطنی مرض سے محفوظ فرمائے اور قناعت کی دولت سے نوازے۔ آمین

لالچ بہت ہی
بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے۔ یہ چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، قتل و غارت وغیرہ سینکڑوں
ایسے ایسےبدترین گناہوں کا سر چشمہ ہے جو جہنم میں لے جانے والے گناہ کبیرہ ہیں۔ لالچ
اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت شہرت، غرض ہرنعمت میں ہوا
کرتا ہے۔
اگر لالچ کا
جذبہ کسی انسان میں بڑھ جاتا ہے تو وہ انسان طرح طرح کی بد اخلاقیوں اور بےمروتی
کے کاموں میں پڑ جاتا ہےاوربڑے سے بڑے گناہوں سے بھی نہیں بچتا، بلکہ سچ پوچھئے تو
حرص وطمع اور لالچ درحقیقت ہزاروں گناہوں کا سر چشمہ ہے، اس سے خدا کی پناہ مانگنی
چاہیے۔
اللہ تعالیٰ قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
لالچ
کسے کہتے ہیں؟ دوسروں
کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اس کو حاصل کرنے کے پھیر میں پریشان
حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا،یہی جذبہ حرص
ولالچ کہلاتا ہے۔(جنتی زیور،ص72)
حرص وطمع
درحقیقت انسان کی ایک پیدائشی خصلت ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں لالچ کی قباحت
مذمت کا بیان آیا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: اگرآدمی کے پاس دو میدان بھر کر
سونا ہو جائے تو پھر وہ ایک تیسرے میدان کو طلب کریگا کہ وہ بھی سونے سے بھر جائے
اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو کوئی شخص
اس سے توبہ کرے اللہ پاک اس کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
ایک اور حدیث
مبارکہ میں ہے:کہ ابن آدم بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک
امید دوسری مال کی محبت۔ (احیاء العلوم،3/238)
لالچ
کا علاج: اس
قلبی مرض کاعلاج صبر و قناعت ہے،یعنی جو کچھ خدا تعالی کی طرف سے بندے کو مل جائے
اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے اور اس کے عقیدہ پر جم جائے کہ انسان جب ماں
کے پیٹ میں رہتا ہے اسی وقت فرشتہ اللہ پاک کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا
ہے: انسان کی عمر، انسان کی روزی، انسان کی بدنصیبی، یہی انسان کا نوشہء تقدیر
ہے۔لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔
اسکے بعد یہ
سمجھ کر اللہ پاک کی رضا اور اس کی عطا پر راضی ہو جاؤ اور یہ کہہ کر لالچ کے قلعے
کو ڈھا دو کہ جو میری تقدیر میں تھا وہ مجھے ملا اور جو میری تقدیر میں ہو گا وہ آئندہ
بھی ملے گا اور اگر کچھ کمی کی وجہ سے قلب میں تکلیف ہو اور نفس ادھر ادھر لپکے تو
صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔
اسی طرح رفتہ
رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص ولالچ کا اندھیرا بادل چھٹ جائے
گا۔یادرکھو:
حرص
ذلت بھری فقیری ہے جو قناعت کرے
تو نگر ہے
اللہ پاک ہم
سب کو لالچ جیسی قبیح خصلت سے محفوظ فرمائے۔آمین

لالچ یا حرص
حد سے زیادہ یا ناقابل تشفی اندرونی جذبہ ہے کہ کسی طرح سے مادی وسائل کو حاصل کیا
جا سکے۔ یہ غذا، مال و دولت، سماجی اوقات یا اقتدار سے متعلق ہو سکتا ہے۔
لالچ عام طور
پر مایوسی کی ضد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یہ دراصل کسی چیز کو پالینے اور اس
پر قبضہ کرنے کی خواہش کے معنی میں آتا ہے اگرچہ اس پر قبضہ کرنا غیر شرعی طریقہ
سے ہی کیوں نہ ہو۔ لالچ وہ نفسیاتی حالت ہے جو انسان کواپنی ان خواہشات کی تکمیل
پر آمادہ کرتی ہے کہ جس کو حاصل کر سکتا ہو یا پھراسے حاصل کر سکنے کی امید ہو اس
کی طرف قدم بڑھائے یہ چیز مادی اور روحانی ہر طرح کی ہو سکتی ہے
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
حضرت عبد اللہ
بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے
رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ
کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی
اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
لالچ ایک گناہ
ہے اور جب بندہ اس گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ وہ مزید بہت سے گناہوں
میں مبتلا ہو جاتا ہے جیسے حسد وغیرہ البتہ نیکیوں کی حرص اور ان میں لالچ بہت
اچھی چیز ہے اور ہمیں تو نیکیوں میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا ہر وہ کام
جو نیک ہو ہمیں وہی اختیار کرنا چاہیے اور برے کاموں سے بچنا چاہیے۔
اللہ کریم سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں لالچ جیسے قبیح کام سے بچا کر شریعت کے مطابق ہر کام کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ
کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

لالچ ایسی بری
عادت ہے کہ جو انسان کو نفس کا غلام بنا کر رکھ دیتی ہے نفس اسے طرح طرح کی
خواہشات میں مبتلا کر کے اسے لالچ جیسی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ
انسان کبھی مال کی لالچ میں تو کبھی بلند مرتبہ و سٹیٹس حاصل کرنے کی لالچ میں
پھنس جاتا ہے گویا کہ لالچ ایسی قبیح چیز ہے کہ علماء بھی اس بیماری میں مبتلا ہو
جاتے ہیں۔
جیسا کہ محبوب
رب العلمین، جناب صادق و امین وﷺ کا فرمان عالیشان ہے: لالچ ایسی پھسلانے والی
چٹان ہے جس پرعلما ء بھی ثابت قدم نہیں رہتے۔ (کنز العمال، 3/199، حدیث: 7579)
قرآن مجید
فرقان حمید کی سورۂ نساء کی آیت 128میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اُحْضِرَتِ
الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5،
النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔ مکمل تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت ہے:لالچ دل
کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا ہے۔ (تفسیر خازن، 1/437)
احادیث مبارکہ
میں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں
لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے
اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو
وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
ایک اور مقام
پر ارشاد فرمایا:اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہوتوچاہے گا کہ اس کے پاس
دو(2)وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹّی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھرسکتی اور جو
اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2418)
یاد رہے ہر
لالچ بری نہیں ہوتی جیسے نیکیوں کے معاملے میں لالچ رکھنا کہ ان شاءاللہ الکریم
میں آج اتنے نوافل پڑھوں گا یا اس کتاب کا اتنا مطالعہ کروں گا وغیرہ ہمیں چاہیے
کہ دنیاوی لالچ سے بچ کر آخرت کے معاملے میں لالچ کی جائے ہمیشہ نیکیوں میں دوسروں
سے آگے بڑھنے کی لالچ ہو۔ جیسا کہ سرکار ذی وقار، مدینے کےتاجدار ﷺ نے نیکیوں کا
حریص بننے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس پرحرص کروجوتمہیں نفع دے اور اللہ
پاک سے مدد مانگو عاجز نہ ہو۔ (مسلم، ص 2341،
حدیث: 4662)
حضرت علامہ
شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ نےاس حدیث پاک کی شرح فرمائی: اللہ پاک کی عبادت میں
خوب حرص کرو اور اس پر انعام کا لالچ رکھو مگر اس عبادت میں بھی اپنی کوشش
پربھروسا کرنےکےبجائےاللہ پاک سے مدد مانگو۔ (شرح مسلم للنووی، جزء: 61، 8/ 512 ملخصًا)
لالچ سے بچنے
کا ایک سبب قناعت بھی ہے کہ اگر انسان قناعت کو اختیار کرلے اور طرح طرح کی
خواہشات کو بجالانے کی بجائے نفس کر قابو میں رکھے اور نفس کو ہر حال میں اللہ کا
شکر ادا کرنے کا عادی بنائے تو لالچ سے بچنا آسان ہو جائے گا۔
حکیم الامّت
حضرت مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دنیاوی چیزوں میں قناعت اور صبر
اچھا ہے مگر آخرت کی چیزوں میں حرص اور بے صبری اعلیٰ ہے، دین کے کسی درجہ پرپہنچ
کر قناعت نہ کرلو آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (مراۃ المناجیح، 7/ 211)
اللہ ہمیں
پیارے آقا ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حرص کا معنی
ہے لالچ اور لالچ سے مراد یہ ہے کہ اپنی چیز پاس ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے کی چیز
کو دیکھ کر تمنا کرنا کہ یہ اس سے چھین لی جائے اور مجھے دے دی جائے یہ ہوتا ہے
لالچ۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اپنے حق و
ضرورت سے زیادہ کی طلب۔ کسی شخص کا کسی چیز کی یوں خواہش کرنا کہ وہ شے یا ضرورت
زندگی دوسروں کو ملے یا نہ ملے مجھے ملنی چاہئیں۔ ایسا حریص شخص اپنی من پسند چیز
کے حصول کے لئے ہر ذلّت اٹھاتا ہے اور ہر شخص کے سامنے دست سوال پھیلاتا ہے اور
یوں اپنی عزت و کرامت کو ذلت و خواری میں بدل لیتا ہے۔
وہ کام ہے جس
کی طرف انسان متوجہ ہوتا کہ وہ اسے کرے یا وہ چیز اسے حاصل ہو یہ نیک کام یا مقصد
ہوتا ہے۔جیسے علم کی طلب کرنا،نیک کام کرنے کی خواہش کرنا جیسے لوگوں کی ضروریات
کو پورا کرنے اور صدقہ کا ارادہ کرنا،اسی طرح گناہوں کے بخشوانے اور اسی طرح کے
دیگر اچھےکاموں کا ارادہ کرنا۔
قرآن مجید میں
ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّۙ-وَ
نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ(۸۴) (پ 7،
المائدۃ: 84) ترجمہ:اور ہم اللہ پر اور اس حق پر کیوں نہ ایمان لائیں جو ہمارے پاس
آیا ہے؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کی صف میں شامل کر لے
گا۔ مکمل
لالچ جس کا
متعلق یعنی جس کی طلب کی جا رہی ہے ایسا کام ہو جو شر پر مبنی اور حرام کی طرف لے
جائے دراصل یہی لالچ ہمارا مقصود بحث ہے۔یعنی ہماری بحث کا موضوع بھی یہی لالچ ہے
جو قابل نفرت عمل ہے۔ لالچ ایک سنگین اخلاقی بیماری ہے جو انسان کے دل و روح کو
بگاڑ دیتی ہے۔جس میں لالچ آجاتا ہے وہ طرح طرح کے خطرات میں مبتلا ہو جاتا ہے اور
اس کے نتیجے میں کئی قسم کی بدنامیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔اس لالچ کے فرد اور
معاشرے پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ لالچ
اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائی ہے،یوں سمجھئے کہ لالچ اصل ہے اور اس کی کئی
شاخیں ہیں یعنی یہ جڑ ہے اور اس کے زمرے میں کئی ایسے چھوٹے بڑے گناہ آجاتے ہیں۔جن
کے نتیجے میں خون خرابے ہوتے ہیں،عزت داروں کی توہین ہوتی ہے، یہ گناہ مومنین کی
غیبت کا باعث بنتا ہے،چھوٹ بولنے کی وجہ قرار پاتا ہے اسی طرح کئی اور گناہ بھی اس
لالچ کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔لالچ ایک خطرناک چیز ہے اس کی تصدیق شریعت کی تعلیمات
سے بھی ہوتی ہے۔
حرص و لالچ
انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ہر انسان حرص و لالچ میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ
بے شمار مصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جب انسان اس میں
مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں مزید کی تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ
نے ارشاد فرمایا: انسان کے پاس اگر دو بڑے میدان سونے کے انباروں سے بھر جائیں پھر
بھی اس میں تیسرے کی تمنا رہے گی جب تک کہ وہ منوں مٹی کے نیچے نہیں پہنچ جاتا۔
لہذا عقلمندی
اسی میں ہے کہ ہم لالچ اور دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے بچتے ہوئے قناعت اور
سادگی کو اپنائیں۔یوں ہماری زندگی بھی پر سکون گزرے گی اور دنیا و آخرت میں بھی
ہمیں اس کی خوب خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
اس سے ہمیں یہ
معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے خلاف سازش کرنے کا انجام بہت برا ہوتا ہے کیونکہ جو کسی
کے لئے گڑھا کھودتا ہے بالآخر ایک دن وہ خود ہی اس گڑھے میں گر جاتا ہے۔ لہذا ہمیں
حرص و لالچ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ ہمیں حرص
و لالچ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خواہشات کی
زیادتی کے ارادے کا نام حرص ہے اوربری حرص یہ ہے کہ اپنا حصہ حاصل کرلینے کے
باوجود دوسرے کے حصے کی لالچ رکھے۔ یا کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی
خواہش رکھنے کو حرص،اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔
حرص ایک ایسا
باطنی عمل ہے کہ جو ہوتا تو باطن میں ہے لیکن اظہار ظاہر سے بھی ہو جاتا ہے۔ حرص
کا تعلق فقط مال و دولت سے نہیں حرص کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے چنانچہ
مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو مال کا حریص مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو
کھانے کا حریص نیکیوں میں اضافے کے تمنائی کو نیکیوں کی حریص جبکہ گناہوں کا بوجھ
بڑھانے والےکو گناہوں کا حریص کہیں گے لالچ اور حرص خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت،
عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہو سکتی ہے۔
حرص کی تین
قسمیں ہیں: حرص محمود یعنی اچھی حرص، حرص مذموم یعنی بری اور قابلِ مذمت حرص اور حرص
مباح یعنی جائز حرص۔ اچھی چیز کی حرص اچھی اور بری چیز کی حرص بری ہے لہذا نیکیوں مثلا
نماز، روزہ، زکوة، حج، صدقہ، خیرات، تلاوت، ذکر اللہ، درود پاک، حصول علم دین، صلہ
رحمی، خیر خواہی اور نیکی کی دعوت عام کرنے کی حرص محمود یعنی اچھی ہے۔ گناہوں
مثلا رشوت، چوری، بدنگاہی، زنا، اغلام بازی، امرد پسندی، حب جاہ، فلمیں ڈرامے دیکھنے،
گانے باجے سننے، نشے، جوئے کی حرص، غیبت، تہمت، چغلی، گالی دینے، بدگمانی، لوگوں
کے عیب ڈھونڈنے اور انہیں اچھالنے و دیگر گناہوں کی حرص مذموم یعنی برا اور اس سے
بچنا لازم۔ کھانا پینا،سونا، پینا، دولت اکھٹی کرنا، مکان بنانا،تحفہ دینا، عمدہ
یا زائد لباس پہننا،و دیگر کئی کام مباح یعنی جائز کہ ان کے کرنے میں نہ گناہ نہ
ثواب، لہذا ان کی حرص میں بھی نہ گناہ نہ ثواب البتہ اچھی نیت سے کیا جائے تو اچھا،اس
کی حرص بھی اچھی اور بری نیت سے برا اور اس کی حرص بھی بری اور اس سے بچنا لازم ہے۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ
النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ اَحَدُهُمْ
لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ-وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ
یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠(۹۶) (پ 1،
البقرۃ:96)ترجمہ: بےشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس
رکھتے ہیں اور مشرکوں سے ایک کو تمنا ہے کہ کئی ہزار پر سے جی ہیں اور وہ اس سے
اعزاز سے دور نہ کر کرے گا اتنی عمر دی ہے جانا کہ اللہ ان کے کو تک یعنی برے عمل
کو دیکھ رہا ہے۔ مکمل
فرمانِ مصطفیٰ
ﷺ ہے: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسرے کی خواہش کرے
گا اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
نیکیوں کی حرص
بڑھانے کے لئے نیکیوں کے فضائل کا مطالعہ کیجیے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے، رضائے
الہی پانے کی نیت سے راہ عمل پر قدم رکھ دیجیے، بزرگان دین کے شوق عبادت کے واقعات
کا مطالعہ کیجیے۔
گناہوں کی حرص
سے بچنے کے لئے گناہوں کی پہچان حاصل کیجیے
گناہوں کے نقصانات و عذابات پر غور کیجیے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے دینی کتب
و رسائل کا مطالعہ کیجیے برے خاتمے سے ڈریئے اور حسن خاتمہ کی دعا کیجیے اللہ۔پاک
کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیے۔

لالچ ایک منفی
جذبہ ہے جو انسان کو بے پناہ خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ جذبہ انسان کے دل و
دماغ میں اس طرح گھر کر لیتا ہے کہ وہ دوسروں کی چیزوں کی خواہش میں اپنی عقل و
فطرت کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ لالچ کی بنا پر انسان اپنی اصل ضروریات سے
تجاوز کر جاتا ہے اور اسے ہمیشہ زیادہ کی طلب رہتی ہے، چاہے اس کا حاصل کرنا ممکن
نہ ہو۔
لالچ کا آغاز
انسان کی فطری خواہشات سے ہوتا ہے، لیکن جب یہ خواہشات حد سے بڑھ جاتی ہیں تو یہ
لالچ میں بدل جاتی ہیں۔ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں کے حقوق کو
پامال کرنے لگتا ہے۔ اس سے نہ صرف اخلاقی نقصان ہوتا ہے، بلکہ معاشرتی تعلقات بھی
متاثر ہوتے ہیں۔ لالچ کی وجہ سے فرد اپنی زندگی میں سکون کی بجائے بےچینی کا سامنا
کرتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کبھی تسلی نہیں پاتا۔
لالچ کا اثر
نہ صرف فرد کی شخصیت پر پڑتا ہے بلکہ یہ پورے معاشرے میں بھی پھیل سکتا ہے۔ جب لوگ
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے درمیان حسد اور بغض پیدا ہوتا
ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی تعلقات میں دراڑ آتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی ختم ہوتی
ہے۔
اسلام میں بھی
لالچ کو برا قرار دیا گیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس کے بارے میں سختی سے متنبہ کیا
گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص لالچ
میں مبتلا ہوتا ہے، وہ کبھی بھی سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ لالچ انسان کو دلی سکون سے دور کر دیتا ہے۔
آخرکار، لالچ
کے اثرات انتہائی منفی ہوتے ہیں۔ اس سے انسان اپنے اصولوں اور اخلاقیات سے ہٹ کر
کام کرتا ہے اور اپنی اصل ضروریات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی
خواہشات کو معتدل رکھنا چاہیے اور لالچ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ ایک
کامیاب اور خوشحال زندگی گزار سکے۔
قرآن مجید میں
لالچ یا حرص کے بارے میں کئی مقامات پر ذکر آیا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں
کو اس منفی جذبے سے بچنے کی ہدایت دی ہے۔ لالچ انسان کو ہمیشہ زیادہ کی طلب میں
مبتلا کرتا ہے اور اس کی روحانی اور دنیاوی سکون کو چھین لیتا ہے۔
قرآن مجید میں
سورہ آل عمران کی آیت 14 میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی حرص و طمع کو ذکر کیا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ
حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ
الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ
الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ
عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)ترجمہ: لوگوں کے لیے خواہشات (کی محبت)
خوشنما بنا دی گئی ہے، جیسے عورتیں، بچے، سونے چاندی کے خزانے، نشان زدہ گھوڑے،
مویشی اور کھیت۔ یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہیں، لیکن اللہ کے پاس بہترین انجام
ہے۔ مکمل
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی عارضی چیزوں کی محبت کو لالچ کے طور پر بیان کیا ہے اور
فرمایا کہ یہ سب فانی ہیں، جبکہ اللہ کے پاس حقیقی انعام اور سکون ہے۔
قرآن میں حرص
کو انسان کی ایک بری صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی
گئی ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں لالچ ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو دنیا کی فانی
چیزوں کی طرف راغب کرتی ہے اور اس سے اس کا دل اور روح سکون سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی خواہشات کو اعتدال میں رکھنے اور دنیا کی محبت کو آخرت کی
محبت سے کم کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ ہم اپنے اعمال میں توازن رکھ سکیں اور اللہ
کے راستے پر چل سکیں۔
حدیث کی روشنی
میں لالچ (حرص) کو ایک بہت ہی ناپسندیدہ اور منفی صفت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ
نے اپنی مختلف حدیثوں میں اس پر زور دیا کہ انسان کو لالچ سے بچنا چاہیے، کیونکہ
یہ انسان کو اپنی ضروریات سے زیادہ خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے اندر
سکون نہیں رہتا۔
لالچ
کے نقصانات: لالچ
انسان کو سکون سے محروم کر دیتا ہے، لالچ سے انسان کے اخلاق اور عمل متاثر ہوتے
ہیں، جو شخص دنیا کی لالچ میں مبتلا ہوتا ہے، وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا، دل میں
لالچ پیدا کرنا انسان کے اندر ہر برائی کو جنم دیتا ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں
خسارے میں پڑتا ہے، لالچ انسان کو ہر قسم کی برائیوں کا شکار بناتا ہے اور اس کی
دنیا و آخرت میں ناکامی کا سبب بنتا ہے۔

کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 190)
اللہ قرآن پاک
میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ جن شخصیات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ ایسی باطنی بیماری ہے کہ جس سے بچنا مشکل ہے جس پر
اللہ کا خاص فضل و کرم ہو وہی حرص و لالچ سے بچ سکتا ہے۔
اخروی معاملات
میں (نیکیوں میں) لالچ، حرص اچھی ہے اور لالچ اگر دنیاوی چیزوں میں ہو تو برا ہے مثلا
کسی کو مال و دولت کا لالچ ہوتا ہے کسی کو کھانے کا کسی کو اچھے کپڑے بیگ جوتے یا عزت وغیرہ حاصل کرنے کا (اگر کوئی اچھی نیت نہ ہو)۔
لالچ انسان کو
اندھا کر دیتا ہے جیسے بلعم بن باعوراء جو اپنے دور کا بہت بڑا عالم عابداور زاہد
تھا وہ مستجاب الدعوات تھا لیکن مال و دولت کی حرص نے اس کا ایمان تک تباہ کردیا۔
حضور سید
المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑئے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں
تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کیلئے
نقصان دہ ہے۔ (ترمذی، 4/ 166، حدیث: 2383)
حضرت حکیم بن
حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے حکیم! یہ
مال تروتازہ اور میٹھا ہے، جو اسے اچھی نیت سے لے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے
اور جو اسے قلبی لالچ سے لے گا تو اس میں ا سے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی
طرح ہو جاتا ہے جو کھائے اور شکم سیر نہ ہو اور (یاد رکھو) اوپر والا ہاتھ نیچے
والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (بخاری، 4/ 230،
حدیث: 6441)
حضرت عبد اللہ
بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں،
لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
حکم مال ودولت
کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ
ختم کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 191)
لالچ جب کسی
چیز سے متعلق دل میں محسوس ہو تو اس بارے میں غور کر لیا جائے کہ کیا یہ آخرت کے
لیے بہتر ہے یا دنیاوی چیز سے متعلق ہے کیا کوئی اچھی نیت بھی ہے؟ شح، طمع یعنی
لالچ غفلت میں ڈال دیتی ہے اس سے بچنا
چاہیے کہ اس نے بلعم بن باعورا کی دنیا و آخرت کیسے برباد کر دی تھی؟
اللہ پاک ہمیں
تمام جسمانی و باطنی بیماریوں سے نجات عطا فرمائے آمین اور ہمارا دل نور حق سے
منور فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

ہم میں سے ہر
ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کرجہان آخرت کے سفر پر روانہ
ہوجانا ہے۔اس سفر کے دوران ہمیں قبرو حشر اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے
گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دار آخرت
کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں۔جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے
نماز اورکچھ باطنی مثلاً اخلاص۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل
اوربعض باطنی جیسے لالچ۔لہذا اب یہاں ایک باطنی گناہلالچ کے بارے میں کچھ ملاحظہ
ہو۔
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔
(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 190)
اللہ پاک قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ ہے
اس کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ
حضر ت جابربن
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ
ظلم قیامت کا اندھیراہے اور شح (یعنی نفس کے لالچ) سے بچو کیونکہ شح نے تم سے پہلی
امتوں کوہلاک کردیا کہ اسی نے ان کوناحق قتل کرنے اور حرام کام کرنےپرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)
ایک اور جگہ
ارشاد فرمایا: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا
خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ
گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
حجۃ الاسلام
حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے
ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر
باطن حسد، ریا اور تکبّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔
(منہاج العابدین، ص 13 ملخصًا)
باطنی گناہوں
کا تعلق عموماً دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا دل کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ مال ودولت کی
ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم
کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 191)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں لالچ سے بچا کر قناعت کی عظیم دولت سے مالا مال فرمائےاور
لالچ جیسی اور مہلک بیماریوں سے بچائے۔ آمین