کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 190)

اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل

اس سے یہ معلوم ہوا کہ جن شخصیات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہیں اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ ایسی باطنی بیماری ہے کہ جس سے بچنا مشکل ہے جس پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہو وہی حرص و لالچ سے بچ سکتا ہے۔

اخروی معاملات میں (نیکیوں میں) لالچ، حرص اچھی ہے اور لالچ اگر دنیاوی چیزوں میں ہو تو برا ہے مثلا کسی کو مال و دولت کا لالچ ہوتا ہے کسی کو کھانے کا کسی کو اچھے کپڑے بیگ جوتے یا عزت وغیرہ حاصل کرنے کا (اگر کوئی اچھی نیت نہ ہو)۔

لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے جیسے بلعم بن باعوراء جو اپنے دور کا بہت بڑا عالم عابداور زاہد تھا وہ مستجاب الدعوات تھا لیکن مال و دولت کی حرص نے اس کا ایمان تک تباہ کردیا۔

حضور سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑئے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کیلئے نقصان دہ ہے۔ (ترمذی، 4/ 166، حدیث: 2383)

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے حکیم! یہ مال تروتازہ اور میٹھا ہے، جو اسے اچھی نیت سے لے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے قلبی لالچ سے لے گا تو اس میں ا سے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو کھائے اور شکم سیر نہ ہو اور (یاد رکھو) اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (بخاری، 4/ 230، حدیث: 6441)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)

حکم مال ودولت کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 191)

لالچ جب کسی چیز سے متعلق دل میں محسوس ہو تو اس بارے میں غور کر لیا جائے کہ کیا یہ آخرت کے لیے بہتر ہے یا دنیاوی چیز سے متعلق ہے کیا کوئی اچھی نیت بھی ہے؟ شح، طمع یعنی لالچ غفلت میں ڈال دیتی ہے اس سے بچنا چاہیے کہ اس نے بلعم بن باعورا کی دنیا و آخرت کیسے برباد کر دی تھی؟

اللہ پاک ہمیں تمام جسمانی و باطنی بیماریوں سے نجات عطا فرمائے آمین اور ہمارا دل نور حق سے منور فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ