لالچ بہت ہی
بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے۔ یہ چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، قتل و غارت وغیرہ سینکڑوں
ایسے ایسےبدترین گناہوں کا سر چشمہ ہے جو جہنم میں لے جانے والے گناہ کبیرہ ہیں۔ لالچ
اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت شہرت، غرض ہرنعمت میں ہوا
کرتا ہے۔
اگر لالچ کا
جذبہ کسی انسان میں بڑھ جاتا ہے تو وہ انسان طرح طرح کی بد اخلاقیوں اور بےمروتی
کے کاموں میں پڑ جاتا ہےاوربڑے سے بڑے گناہوں سے بھی نہیں بچتا، بلکہ سچ پوچھئے تو
حرص وطمع اور لالچ درحقیقت ہزاروں گناہوں کا سر چشمہ ہے، اس سے خدا کی پناہ مانگنی
چاہیے۔
اللہ تعالیٰ قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
لالچ
کسے کہتے ہیں؟ دوسروں
کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اس کو حاصل کرنے کے پھیر میں پریشان
حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا،یہی جذبہ حرص
ولالچ کہلاتا ہے۔(جنتی زیور،ص72)
حرص وطمع
درحقیقت انسان کی ایک پیدائشی خصلت ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں لالچ کی قباحت
مذمت کا بیان آیا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: اگرآدمی کے پاس دو میدان بھر کر
سونا ہو جائے تو پھر وہ ایک تیسرے میدان کو طلب کریگا کہ وہ بھی سونے سے بھر جائے
اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو کوئی شخص
اس سے توبہ کرے اللہ پاک اس کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
ایک اور حدیث
مبارکہ میں ہے:کہ ابن آدم بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک
امید دوسری مال کی محبت۔ (احیاء العلوم،3/238)
لالچ
کا علاج: اس
قلبی مرض کاعلاج صبر و قناعت ہے،یعنی جو کچھ خدا تعالی کی طرف سے بندے کو مل جائے
اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے اور اس کے عقیدہ پر جم جائے کہ انسان جب ماں
کے پیٹ میں رہتا ہے اسی وقت فرشتہ اللہ پاک کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا
ہے: انسان کی عمر، انسان کی روزی، انسان کی بدنصیبی، یہی انسان کا نوشہء تقدیر
ہے۔لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔
اسکے بعد یہ
سمجھ کر اللہ پاک کی رضا اور اس کی عطا پر راضی ہو جاؤ اور یہ کہہ کر لالچ کے قلعے
کو ڈھا دو کہ جو میری تقدیر میں تھا وہ مجھے ملا اور جو میری تقدیر میں ہو گا وہ آئندہ
بھی ملے گا اور اگر کچھ کمی کی وجہ سے قلب میں تکلیف ہو اور نفس ادھر ادھر لپکے تو
صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔
اسی طرح رفتہ
رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص ولالچ کا اندھیرا بادل چھٹ جائے
گا۔یادرکھو:
حرص
ذلت بھری فقیری ہے جو قناعت کرے
تو نگر ہے
اللہ پاک ہم
سب کو لالچ جیسی قبیح خصلت سے محفوظ فرمائے۔آمین