ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کرجہان آخرت کے سفر پر روانہ ہوجانا ہے۔اس سفر کے دوران ہمیں قبرو حشر اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دار آخرت کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں۔جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز اورکچھ باطنی مثلاً اخلاص۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اوربعض باطنی جیسے لالچ۔لہذا اب یہاں ایک باطنی گناہلالچ کے بارے میں کچھ ملاحظہ ہو۔

کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 190)

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ ہے اس کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ

حضر ت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیراہے اور شح (یعنی نفس کے لالچ) سے بچو کیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیا کہ اسی نے ان کوناحق قتل کرنے اور حرام کام کرنےپرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)

حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، ریا اور تکبّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔ (منہاج العابدین، ص 13 ملخصًا)

باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا دل کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ مال ودولت کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 191)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں لالچ سے بچا کر قناعت کی عظیم دولت سے مالا مال فرمائےاور لالچ جیسی اور مہلک بیماریوں سے بچائے۔ آمین