لالچ ایک منفی
جذبہ ہے جو انسان کو بے پناہ خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ جذبہ انسان کے دل و
دماغ میں اس طرح گھر کر لیتا ہے کہ وہ دوسروں کی چیزوں کی خواہش میں اپنی عقل و
فطرت کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ لالچ کی بنا پر انسان اپنی اصل ضروریات سے
تجاوز کر جاتا ہے اور اسے ہمیشہ زیادہ کی طلب رہتی ہے، چاہے اس کا حاصل کرنا ممکن
نہ ہو۔
لالچ کا آغاز
انسان کی فطری خواہشات سے ہوتا ہے، لیکن جب یہ خواہشات حد سے بڑھ جاتی ہیں تو یہ
لالچ میں بدل جاتی ہیں۔ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں کے حقوق کو
پامال کرنے لگتا ہے۔ اس سے نہ صرف اخلاقی نقصان ہوتا ہے، بلکہ معاشرتی تعلقات بھی
متاثر ہوتے ہیں۔ لالچ کی وجہ سے فرد اپنی زندگی میں سکون کی بجائے بےچینی کا سامنا
کرتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کبھی تسلی نہیں پاتا۔
لالچ کا اثر
نہ صرف فرد کی شخصیت پر پڑتا ہے بلکہ یہ پورے معاشرے میں بھی پھیل سکتا ہے۔ جب لوگ
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے درمیان حسد اور بغض پیدا ہوتا
ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی تعلقات میں دراڑ آتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی ختم ہوتی
ہے۔
اسلام میں بھی
لالچ کو برا قرار دیا گیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس کے بارے میں سختی سے متنبہ کیا
گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص لالچ
میں مبتلا ہوتا ہے، وہ کبھی بھی سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ لالچ انسان کو دلی سکون سے دور کر دیتا ہے۔
آخرکار، لالچ
کے اثرات انتہائی منفی ہوتے ہیں۔ اس سے انسان اپنے اصولوں اور اخلاقیات سے ہٹ کر
کام کرتا ہے اور اپنی اصل ضروریات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی
خواہشات کو معتدل رکھنا چاہیے اور لالچ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ ایک
کامیاب اور خوشحال زندگی گزار سکے۔
قرآن مجید میں
لالچ یا حرص کے بارے میں کئی مقامات پر ذکر آیا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں
کو اس منفی جذبے سے بچنے کی ہدایت دی ہے۔ لالچ انسان کو ہمیشہ زیادہ کی طلب میں
مبتلا کرتا ہے اور اس کی روحانی اور دنیاوی سکون کو چھین لیتا ہے۔
قرآن مجید میں
سورہ آل عمران کی آیت 14 میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی حرص و طمع کو ذکر کیا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ
حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ
الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ
الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ
عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)ترجمہ: لوگوں کے لیے خواہشات (کی محبت)
خوشنما بنا دی گئی ہے، جیسے عورتیں، بچے، سونے چاندی کے خزانے، نشان زدہ گھوڑے،
مویشی اور کھیت۔ یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہیں، لیکن اللہ کے پاس بہترین انجام
ہے۔ مکمل
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی عارضی چیزوں کی محبت کو لالچ کے طور پر بیان کیا ہے اور
فرمایا کہ یہ سب فانی ہیں، جبکہ اللہ کے پاس حقیقی انعام اور سکون ہے۔
قرآن میں حرص
کو انسان کی ایک بری صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی
گئی ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں لالچ ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو دنیا کی فانی
چیزوں کی طرف راغب کرتی ہے اور اس سے اس کا دل اور روح سکون سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی خواہشات کو اعتدال میں رکھنے اور دنیا کی محبت کو آخرت کی
محبت سے کم کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ ہم اپنے اعمال میں توازن رکھ سکیں اور اللہ
کے راستے پر چل سکیں۔
حدیث کی روشنی
میں لالچ (حرص) کو ایک بہت ہی ناپسندیدہ اور منفی صفت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ
نے اپنی مختلف حدیثوں میں اس پر زور دیا کہ انسان کو لالچ سے بچنا چاہیے، کیونکہ
یہ انسان کو اپنی ضروریات سے زیادہ خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے اندر
سکون نہیں رہتا۔
لالچ
کے نقصانات: لالچ
انسان کو سکون سے محروم کر دیتا ہے، لالچ سے انسان کے اخلاق اور عمل متاثر ہوتے
ہیں، جو شخص دنیا کی لالچ میں مبتلا ہوتا ہے، وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا، دل میں
لالچ پیدا کرنا انسان کے اندر ہر برائی کو جنم دیتا ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں
خسارے میں پڑتا ہے، لالچ انسان کو ہر قسم کی برائیوں کا شکار بناتا ہے اور اس کی
دنیا و آخرت میں ناکامی کا سبب بنتا ہے۔