لالچ یا حرص حد سے زیادہ یا ناقابل تشفی اندرونی جذبہ ہے کہ کسی طرح سے مادی وسائل کو حاصل کیا جا سکے۔ یہ غذا، مال و دولت، سماجی اوقات یا اقتدار سے متعلق ہو سکتا ہے۔

لالچ عام طور پر مایوسی کی ضد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یہ دراصل کسی چیز کو پالینے اور اس پر قبضہ کرنے کی خواہش کے معنی میں آتا ہے اگرچہ اس پر قبضہ کرنا غیر شرعی طریقہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ لالچ وہ نفسیاتی حالت ہے جو انسان کواپنی ان خواہشات کی تکمیل پر آمادہ کرتی ہے کہ جس کو حاصل کر سکتا ہو یا پھراسے حاصل کر سکنے کی امید ہو اس کی طرف قدم بڑھائے یہ چیز مادی اور روحانی ہر طرح کی ہو سکتی ہے

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)

لالچ ایک گناہ ہے اور جب بندہ اس گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ وہ مزید بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جیسے حسد وغیرہ البتہ نیکیوں کی حرص اور ان میں لالچ بہت اچھی چیز ہے اور ہمیں تو نیکیوں میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا ہر وہ کام جو نیک ہو ہمیں وہی اختیار کرنا چاہیے اور برے کاموں سے بچنا چاہیے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں لالچ جیسے قبیح کام سے بچا کر شریعت کے مطابق ہر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین