لالچ
کی تعریف: کسی
چیز میں حد درجہ و دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔
ہمارے معاشرے
میں ہر طرح کے لوگ پائیں جاتے ہے اور ایسوں کی تعداد بھی ہے جو لالچ میں مبتلا نظر
آتے ہیں عموماً دوسروں کے مالوں اور گھروں اور کاروبار کو دیکھ کر لالچ کا شکار ہو
جاتے ہیں اور رب کی رضا سے سبکدوش ہو کر دنیا کو اپنا مستقل ٹھکانہ سمجھتے ہیں
جبکہ یہ دنیا عارضی و فانی ہے لالچ کے بہت سے نقصانات ہیں۔
دوسروں کے مال
کو دیکھ کر یہ خواہش کرنا میرے پاس بھی یہ مال ہوتا اور صاحبِ مال سے اس لیے میل
ملاپ زیادہ رکھنا کے وہ اسے مالی مدد کریں جبکہ مسلمان مسلمان کو رب کی رضا کے لیے
محبت کرنا چاہیے، اور یہاں مال کی وجہ سے دوستی اور محبت ہے جو کے خسارے کا باعث
ہے بہت سے لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا جب رب العالمین نوازتا ہے تو اور مزید کی چاہ
میں آکر لالچ کرنے لگتے ہے۔
اللہ پاک قرآن
میں فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
حدیث مبارکہ
میں طمع سے یعنی لالچ سے بچتے رہنے کا حکم ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: حضرت عبد
اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے
بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل
پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع
رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
مال و دولت کی
ایسی لالچ جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کردے،
نہایت ہی قبیح گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے،
مال و دولت میں پھنسنے والا شخص ناکام و نامراد اور جو ان کے مکر و جال سے بچ گیا
وہی کامیاب و کامران ہے۔
ہم اپنا جائزہ
لیں کہ کہیں ہم بھی مال کی لالچ تو نہیں کرتی ہے اگر لالچ دل میں آجائے تو اسے
جھٹک دیجئے اور دل کو نیکیوں کا حریص بنائیں لالچ ہر صورت میں برا نہیں ہے بلکہ
نیکیوں میں لالچ کرنا بلندی درجات کا ذریعہ ہے۔
حضرت قطب
مدینہ رحمۃ الله علیہ ایک کریم النفس اور شریف الفطرت بزرگ تھے ان کی قربت میں انس
و محبت کے دریا بہتے تھے اور سلف و صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی، آپ سخی اور بہت عطا
فرمانے والے تھے، آپ رحمۃاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: طمع نہیں، منع نہیں اور جمع نہیں
یعنی لالچ مت کرو کہ کوئی دے اور اگر کوئی بغیر مانگے دے تو منع مت کرو اور جب لے
لو تو جمع مت کرو۔
صحابی
رسول عمر فاروق کی طمع: ایک غزوہ کے لئے جب پیارے آقا ﷺ نے صحابہ کرام
علیہم الرضوان سے جنگ کے لئے مال طلب فرمایا تو صحابی رسول عمر فاروق رضی اللہ عنہ
نے سوچا آج میں ابو بکر سے نیکیوں میں آگے بڑھ جاؤں گا اور اپنا کل مال کا آدھا
حصہ لیکر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے تو پیارے آقاﷺ نے پوچھا کیا لائے ہو؟ تو
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: کل مال کا آدھا حصہ لایا ہوں، پھر ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ حاضر بارگاہ ہوئے پیارے آقا صلی ﷺ نے پوچھا: ابو بکر کیا لائے ہو؟ تو
ابو بکر نے عرض کیا: میں نے سارا گھر کا مال آپکی خدمت میں حاضر کر دیا ہے۔ پیارے
آقا ﷺ نے پوچھا: گھر کے لئے کچھ چھوڑا! ابو بکر نے فرمایا: گھر کے لئے اللہ اور اس
کا رسول کافی ہے۔
سبحٰن اللہ
کیسا جذبہ ہے! صد کروڑ مرحبا صحابہ کرام علیہم الرضوان میں مقابلہ بازی ہوتی بھی
تھی تو نیکیوں میں، یہ نفوس قدسیہ نیکیوں کی طمع کیا کرتے تھے وہ لوگ جانتے تھے
مال و دولت دنیا کی زیب و زینت فنا ہونے والا ہے ایک دن فنا ہو جائیگا اس لئے وہ
آخرت میں کامیابی اور جنت میں داخلے کے لئے نیکیوں پر سبقت لے جانے کی کوشش میں
رہتے تھے۔
اللہ پاک ہمیں
نیکیوں کا طمع عطا کرے۔ آمین
مال و دولت کی
لالچ میں آکر آخرت کو فراموش کرنا یقیناً خسارے کا باعث ہے۔دنیاوی معاملات میں
لالچی انسان سے ہر کوئی دور بھاگتا ہے۔ عزت و جاہ کی لالچ بھی قبیح فعل ہے نیکیوں
میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا لالچ اچھا عمل ہے علم دین سیکھنے کا لالچ باعث
اجر و ثواب ہے۔
امیر
اہل سنت کی طمع: امیر اہل
سنت دامت و برکاتہم العالیہ موجودہ دور کے
علمی و روحانی شخصیت ہیں ان کی گفتگو سے ہمیں یہی دیکھنے کو ملتا ہے وہ نیکیوں کے
حریص ہیں ان کی اعلیٰ خوبیوں میں سے ایک خوبی نیکی کرانے کی لالچ صاف ظاہر ہوتی ہے
وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان سیدھی راہ پر آجائے نمازوں کا پابند ہو جائے نیک اعمال
پر عمل کرنے والا ہو گناہوں سے بچنے بچانے والا ہو آقا کریم ﷺ کی محبت کا دم بھرنے
والا ہو شریعت مطہرہ پر پابندی سے عمل کرنے کرانے والا ہو۔
امت کا درد دل
میں رکھتے ہیں اور نیکیوں کی طمع کے خواہاں ہے اللہ پاک سے دعا ہے اللہ رب
العالمین سیدی و مرشدی کی طمع کے صدقے ہمیں بھی نیکیوں کا حریص بنائے۔
قارون نے بھی
مال کی لالچ کی اور زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور موسیٰ علیہ السلام پر جھوٹا الزام
لگایا وہ بھی زمین میں دھنسا دیا گیا لالچ بری بلا ہے لالچی شخص کی خواہش کبھی
پوری نہیں ہوتی ہمیشہ زیادہ کی لالچ میں خوار ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں
بری طمع سے محفوظ فرمائے، نیکیوں کا حریص بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ