اسلام میں اُخوت
و بھائی چارےکی بہت اہمیت ہے، اُخوت دو آدمیوں کے درمیان رابطہ ہوتا ہے،جیسے
پیارے آقا، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا فرمان پاک ہے:الارواح جنود
مجندۃ فما تعارف منھا ائتلف وماتناکر منھا اختلف۔ ترجمہ: ارواح ایک مجتمع لشکر تھیں،ان میں جنہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا، وہ
آپس میں محبت کرنے لگیں اور جنہوں نے ایک دوسرے کو نہ پہچانا، وہ الگ الگ ہو گئیں۔(مسلم، حدیث 1137)ایک واقعہ
ملاحظہ فرمائیں اور اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ صحابہ کس طرح آپس میں بھائی چارے
کا مظاہرہ کیا کرتے تھے، ہجرت کے پہلے سال مہاجرین صحابہ جو انتہائی بے سرو سامانی کی حالت میں اپنا سب کچھ
چھوڑ چھاڑ کر مدینے آ گئے تھے، وہ اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے
تھے، پھر اللہ
پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انصارو مہاجرین کو بھائی بھائی بنا کر ان میں رشتہ اُخوت
(بھائی چارہ)قائم فرما دیا،
تا کہ مہاجرین کے دلوں کو راحت نصیب ہو اور ان کے ذریعے معاش کا مسئلہ بھی حل ہو
جائے۔چنانچہ مسجدِ نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت انس بن مالک رَضِیَ
اللہُ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا، اس وقت تک مہاجرین
کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی، آقا صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا :یہ مہاجرین تمہارے بھائی
ہیں، پھر مہاجرین و انصار سے دو دو اَشخاص کو بلا کر فرماتے گئے:یہ اور تم بھائی
بھائی ہو۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:یہ رشتہ حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔چنانچہ
انصار نے مہاجر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ
عنہم کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ
دی اور کہہ دیا:آپ ہمارے بھائی ہیں، اس لئے سب سامانوں میں آدھا آپ کا آدھا ہمارا
ہے۔ اللہ ُاکبر!صحابہ
کا جذبہ تو دیکھئے۔ایک دن حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ
اللہُ عنہ نے اپنے شہزادے حضرت حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ
عنہ سے استفسار فرمایا:بھائی چارہ کیا ہے؟عرض کی:خوشحالی اور
مصیبت میں ایک دوسرے کی غمگساری کرنا۔ ذرا سوچئے! آج کے دور میں بھائی چارے کی کس
قدر ضرورت ہے!اگر ہم اس میں غفلت برتیں گی تو ہمارے معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ہمیں
چاہئے کہ ہم مسلمانوں کے کام آئیں، اس کے مختلف طریقے ہیں،جیسے کسی کا قرض ادا
کرنا وغیرہ،کسی کی پریشانی دور کر دینا،اللہ پاک کے آخری نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:میری خاطر آپس میں محبت کرنے والے،میری محبت کے مستحق ہو گئے،میری
رضا کی خاطر آپس میں ملاقات کرنے والے میری محبت کے مستحق ہوگئےاور میری رضا کی
خاطر ایک دوسرے کو نصیحت کرنے والے میری محبت کے مستحق ہو گئے۔(اللہ والوں کی باتیں، 2/210)