اُخوت کا معنی  ہے:بھائی چارہ/احساس۔ یہ لفظ سننے میں ہی اس قدر اطمینان بخش اور مخلص ہے کہ انسان نااُمیدی میں بھی بے پناہ طاقت حاصل کر لیتا ہے۔ ہمارا دین بھی ہمیں اُخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔انصارِ مدینہ نے تو اس کا عملی نمونہ بھی دکھا دیا،چنانچہ ہجرت کر کے آئے مہاجرینِ مکہ کو نہ صرف مدینے میں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا ، بلکہ اپنے گھر، سامان، مویشی، یہاں تک کہ اپنی جائیدادیں تک بانٹ لیں۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک حدیث ہے :ایک مومن دوسرے کے لئے دیوار کی مانند ہے کہ ہر اینٹ دوسری اینٹ کو تقویت دیتی ہے۔قرآن ِپاک میں اللہ کریم نے فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان :مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔ (پ26،الحجرات:10 )اگر ہم معاشرے میں اُخوت اور بھائی کی چارے کی اہمیت اور ضرورت کو دیکھیں تو کسی طور پر بھی اسے پسِ پُشت نہیں ڈالا جاسکتا، آج تک دنیا میں وہی قومیں اور معاشرے کامیاب ہوئے ہیں،جنہوں نے صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے اُخوت و بھائی چارے کو اپنایا اور ایسا کرنے سے کسی قوم کے مہذب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔آج اگر ہم دنیا میں دن بدن پھیلتی ہوئی بے چینی اور اَفراتفری کی فضا کو دیکھتی ہیں تو اس کی وجہ بھی برداشت اور قوت کی کمی ہے۔ہر انسان دوسرے سے اعلیٰ اور افضل مقام حاصل کرنے کے چکروں میں ہے، پھر چاہے اس کے لئے اُسے دوسروں کی عزت، احساسات اور اور اَقدار کو کچلنا ہی کیوں نہ پڑے، یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا کے مسلمان بے چینی اور اِنتشار کا شکار ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے اَسلاف کی روایات کو بُھلا کر محض دنیاوی مفاد اور طاقت کو اپنا شعار بنا لیا ہے، اکثر و بیشتر ہم اپنے اِردگرد مختلف آزمائشوں اور آسمانی آفتوں کے بارے میں سنتی ہیں، لیکن کیاکسی نے اس کے محرکات پر غور کیا ؟یہ زلزلے، طوفان، بارشیں، قحط، سیلاب کیوں آتے ہیں؟ وجہ مذہب اسلام، اللہ پاک کے احکامات سے رُوگردانی۔ جب ہم احساس کرنا چھوڑ دیں گی تو ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی، کیونکہ ارشادِ ربّانی ہے:تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم کی پہلی سیڑھی احساس یعنی اُخوت اور بھائی چارہ ہے، اگر میں سمندر کو کوزے میں قید کروں تو فقط اتنا ہی کہوں گی کہ اگر عالمِ دنیا میں مسلمانوں کو ایک قوم،ایک معاشرے ، ایک سوچ یا نظریے نے کامیاب یا سُرخُرو ہونا ہے تو انہیں کسی موتیوں کی پروئی ہوئی مالا کی مانند بننا ہوگا، دو جسم ہوں یا سو لیکن ایک جان ہونا ہوگا، اُخوت کو اپنا شعار بنانا ہوگا، تبھی کوئی معاشرہ، قوم، ملک، سوچ یا نظریہ فخر سے سَر اُٹھا کر کامیاب اور حاکمیت والی زندگی گزار سکتا ہے۔