الحمدُ للہ کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور پھر
مسلمان بنایا،نیز عقل و شعور بھی عطا فرمایا۔ ہدایت کے لئے
قرآنِ کریم عطا فرمایا اور اس کلامِ پاک میں فرمایا: ترجمۂ کنز العرفان:اور
مسلمان مرداور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں،بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی
سے منع کرتے ہیں۔( پ10،التوبہ:71)اخوت و بھائی
چارہ سنّتِ رسول سے ثابت ہے،مکےسے مدینے کی طرف ہجرت کے وقت جب مسلمان رضائے الٰہی
و حکمِ مصطفےٰ پر عمل کرنے کے لئے اپنے گھر بار، کاروبار، جائیداد سب چھوڑ کر اپنے
آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر آس رکھے
مدینہ پہنچے تو خالی ہاتھ تھے۔ اس موقع پر میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم
نے شفقت فرماتے ہوئے ایک ایک مہاجر صحابی کو ایک ایک انصاری صحابی کا بھائی بنا
دیا۔ انصاری صحابہ ٔ کرام نے بھائی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے مال، جائیداد اور
گھر بار سب میں اپنے مہاجر بھائیوں کو حق دیا، اسے مواخاتِ
مدینہ بھی کہتے ہیں۔چنانچہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم
نے(
مواخات کے تحت)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عنہ
مہاجر کو حضرت سعد بن رَبیع انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ کا
بھائی بنادیا تو حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عنہ نے
حضرت عبدُ الرحمن رَضِیَ اللہُ عنہ سے کہا:میں انصار میں سب سے زیادہ مال دا رہوں میں
اپنا مال بانٹ کر نصف آپ کو دیتا ہوں۔حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ عنہ
نے کہا:آپ کا مال آپ کے لئے برکت والا ہو، کیا یہاں کوئی بازارِ تجارت(منڈی)ہے؟حضرت
سعد رَضِیَ اللہُ عنہ نے کہا:ہاں ہے اور انہیں”بَنُو
قَیْنُقَاع“کے بازار کا پتا بتایا،حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ عنہصبح
منڈی گئے، شام کو منافع کا پنیر اور مکھن ساتھ لائے،اسی طرح روزانہ منڈی میں جاتے
اور تجارت کرتے رہے،تھوڑے ہی عرصے میں وہ مالدار بن گئے اور انہوں نے شادی بھی
کرلی۔(بخاری،2/4،حدیث:2048
ملتقطاً)
اس واقعے سے ہم اندازہ لگا سکتی ہیں کہ
اخوت و بھائی چارے کی کتنی اہمیت ہے!گر اخوت و بھائی چارے کی اہمیت نہ ہوتی تو نبیِ
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ نہ فرماتے:ایک
مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی
ہے۔ (بخاری،4/107،حدیث:6026) ایک
مقام پر فرمایا:مسلمانوں کی آپس میں محبت، شفقت اور رحمت کی مثال ایک جسم کی طرح
ہے۔ جب جسم کاکوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں اس کا سارا بدن
شریک ہوتا ہے۔(مسلم،ص1071،حدیث:6586)پوری
اُمّت کی ترقی و خوشحالی اور استحکام،اخوت اور بھائی چارے کے فروغ میں ہے۔اگر
مسلمان لسانی تعصب اور مفاد پرستی سے نکل کر بھائی بھائی بن جائیں تو آج بھی اُمّتِ
مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔ جس طرح پوری امت کی ترقی و خوشحالی کا راز اخوت میں پنہاں ہے اسی طرح ایک
معاشرے حتّٰی کہ ایک گھرانے کے استحکام کے لئے بھی اخوت اور بھائی چارہ کی ضرورت
ہے، اسلامی بھائی چارے کی بنیاد مساوات اور باہمی محبت پر ہے۔اچھے اخلاق اور حقوق
و فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اسلامی دنیا
کے بےتحاشا مسائل حل ہوں گے۔اگر کسی کو کسی سے کمتر نہ سمجھیں اور ہر ایک دوسرے کے
ساتھ ایثار و قربانی سے پیش آئے تو اُمّتِ مسلمہ پوری دنیا کے لئے عملی نمونہ بن
جائے گی۔