اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط

دُرود شریف کی فضیلت

حضرت علامہ مَجدُالدّین فیروز آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ سے منقول ہے :جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں)بیٹھواورکہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو اللہ پاک تم پر ایک فِرِشتہ مقرّر فرمادے گا جو تم کو غیبت سے بازرکھے گا۔اور جب مجلس سے اُٹھو تو کہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو فِرِشتہ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے بازرکھے گا ۔ ([1])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب _ _صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

امام المحدثین کی سند مؤطاامام مالک

امام المحدثین مفتی سید محمددیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ جیدعالم دین،محدث وقت مُسنِد اور استاذالعلما تھے،آپ نے اکابرعلمائے اہل سنت سے خوب استفادہ کیا،عالی اسنادحاصل کیں اوراشاعت علوم وفنون میں مصروف ہوگئے،پھر وہ وقت بھی آیا کہ آپ کا شماربھی اکابرعلمائے اہل سنت میں ہونے لگا، راقم آپ کی اسانیداحادیث میں سب سے پہلے تعارف مؤطاامام مالک پھر امام المحدثین کی سند مؤطاامام مالک اوراس کے شیوخ کا تذکرہ کرے گا ۔

مؤطاامام مالک کاتعارف

مختلف ادوار میں احادیث کی مختلف کتابیں مرتب ومدون کی گئیں لیکن امام مذہب مالکیہ، عالم مدینہ حضرتِ سیِّدنا امام مالِک بن انس رحمۃ اللہ علیہ(ولادت: 93ھ،وفات: 179ھ )کا مجموعۂ احادیث بنام ’’مؤطا امام مالک ‘‘ کو سلسلہ تدوین ِحدیث میں اوّلین کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے جمہور علما نے مؤطاامام مالک کو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولیٰ میں شمار کیاہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ ما نعرف کتابا فی الاسلام بعد کتاب اللہ عزوجل اصح من موطأ مالک۔ یعنی میں اسلام میں کتاب اللہ کے بعد موطأامام مالک سے زیادہ کوئی صحیح کتاب کونہیں جانتا۔([2]) علما فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے وجودسے پہلے کا ہے،کیونکہ اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کتاب اللہ قرآن مجیدکے بعد صحیح ترین کتب ہیں،لیکن امام شافعی کےقول سے مؤطاامام امالک کی ثقاہت واہمیت کا اندازالگایا جاسکتاہے۔

امام المحدثین کی سند مؤطاامام مالک

امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا امام مالک شیخ المشائخ علامہ فضل حق گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھ کراجازت حاصل کی اورانھوں نےسراج الہند علامہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے([3]) اسی طرح امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب نے ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے جملہ اجازات واسانیدحاصل کیں،( مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن، ص،80) اور اعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی سے اورانھوں نے سراج الہندعلامہ شاہ عبدالعزیز سے اورسراج الہندتحریرفرماتے ہیں:

کتاب مؤطاکو والد ماجد (شاہ ولی اللہ محدث دہلوی)نے شیخ محمد وفد اللہ مکی پر بالتمام پیش کیا اور انہوں نے اپنے باپ شیخ محمد بن محمد بن سلیمان([4] )پر اور سند شیخ ابن سلیمان کی کتاب صلۃ الخلف([5] ) میں مذکور ہے۔ نیز شیخ محمد وفد اللہ نے اس کتاب کو شیخ حسن عجیمی سے حاصل کیا اور شیخ عبداللہ بن سالم بصری سے بھی اور ان دونوں بزرگوں نے شیخ مغربی سے اور انہوں نے شیخ سلطان محمد بن احمد مزّاحی([6] )سے (اور مزّاحہ تشدید زا سے دیہات متعلقہ مصر کے ایک گاؤں کا نام ہے) اور شیخ سلطان نے شیخ احمد بن خلیل سبکی سے (سبکہ مصر میں ایک گاؤں ہے) اور انہوں نے شیخ محمد نجم الدین بن احمد غیطی سے (غیطہ بھی مصر میں ایک گاؤں ہے) اور انہوں نے شیخ شرف الدین عبد الحق بن محمد السنباطی سے اور انہوں نے شیخ ابو محمد حسن بن محمد بن ایوب الحسنی اعلم علم الانساب سے اور انہوں نے اپنے چچا شیخ حسن بن محمدبن حسن نسابہ ( [7])سے اور انہوں نے ابو عبداللہ محمد بن جابر الوادی آشی([8] )سے (وادی آش دیار مغرب میں ایک شہر کا نام ہے([9]) انہوں نے شیخ ابو محمد عبداللہ بن محمد بن ہارون قرطبی سے (قرطبہ قاف مضموم اور طائے مہملہ اور بائے موحدہ سے اندلس میں ایک شہر ہے) اور انہوں نے قاضی ابو القاسم شیخ احمد بن یزید قرطبی سے اور انہوں نے شیخ محمد بن عبدالحق بن احمد بن عبدالرحمن ([10]) الخزرجى([11]) القرطبی سے اور انہوں نے شیخ محمد بن فرج([12]) مولی ابن الطلاع([13]) سے اور انہوں نے قاضی ابوالولید یونس بن عبد اللہ بن مغیث الصغار سے اور انہوں نے ابو عیسیٰ ىحىیٰ بن عبداللہ بن یحییٰ بن یحییٰ سے اور انہوں نے اپنے باپ کے چچا عبید اللہ بن یحییٰ سے اور انہوں نے اپنے باپ یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اندلسی سے، جو حضرت امام مالک کے جلیل القدر شاگردوں سے تھے اور دیار مغرب میں ان کے مذہب کے رواج پانے کا باعث وہی ہیں اور یحییٰ بن یحییٰ نے امام مالک سے اس کتاب کو حاصل کیا اور یہ نسخہ مؤطا کا انہی سے مروی ہے۔ (مصمودہ دیار مغرب میں قوم بربرکے ایک قبیلہ کا نام ہے) اور اس کتاب کی سند ہذا کے علاوہ اور بہتیری سند یں ہیں جو کتاب الارشاد الی مہمات الاسناد ([14])میں مذکور ہیں لیکن یہ سند سماع اور قرأت میں مسلسل ہے، بخلاف دو سری سندات کے کہ ان میں اکثر مقامات پر محض اجازت پر اکتفا کیا گیا ہے۔([15]) الحاصل امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ کی سند امام مالک 26واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے ۔

سندِمؤطاامام مالک کےراویان و شیوخ کا مختصرتعارف

(1) امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام تھے۔ آپ اکابرین اہل سنّت سے تھے۔ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہور 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20اکتوبر1935ء کو (بروزپیر)نمازعصرکے سجدے میں وصال فرمایا، جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہورسے متصل جگہ میں تدفین کی گئی ۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([16]) اور فتاویٰ دِیداریہ([17]) آپ کی یادگار ہیں۔( [18])

(2) عارفِ کامل حضرت مولانا فضلِ رحمٰن صدیقی گنج مرادآبادی نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1208 ھ مطابق1794ء کو سندیلہ (ضلع ہردوئی، یوپی ہند) میں ہوئی اور وصال 22ربیعُ الاوّل 1313 ھ مطابق 12ستمبر 1895ءکو فرمایا۔ مزار مبارک گنج مراد آباد (ضلع انّاؤ،یوپی ہند) میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، استاذ و شیخ العلما والمشائخ اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔آپ کی اسانیدکا عربی مجموعہ اتحاف الاخوان باسانیدمولانا فضل الرحمن ہے ،)[19] (جَدِّ اعلیٰ حضرت مولانا رضا علی خان([20]) علیہ رحمۃ الرَّحمٰن آپ کے ہی مرید و خلیفہ تھے۔([21])

(3)اعلیٰ حضرت، مجددِدین وملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق28اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص و عام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت، مصلحِ امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم، استاذالفقہاومحدثین، شیخ الاسلام والمسلمین، مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن([22])،فتاویٰ رضویہ([23]) ، جدّ الممتارعلی ردالمحتار( [24]) اور حدائقِ بخشش([25]) آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔([26])

(4) خاتِمُ الاکابِر، قدوۃ العارفین حضرت علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل، صاحبِ وَرَع وتقوی اورسلسلہ قادریہ رضویہ کے سینتیسویں (37) شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209ھ کو خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذوالحجہ1296ھ کو وصال فرمایا،تدفین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف، اترپردیش ہند میں ہے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں،فقہ میں آپ نے دوکتب مختصرتاریخ اورخطبہ جمعہ تحریرفرمائیں ۔([27])

(3)سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلما و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے، تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین ، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ( [28])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی میں ہے۔([29])

(4)محدث ہندحضرت شاہ ولی اللہ احمدمحدث دہلوی فاروقی رحمۃاللہ علیہ کی پیدائش 4شوال 1110ھ کو ہوئی اوریہیں29محرم 1176ھ مطابق 1762ء وصال فرمایا،تدفین مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی میں ہوئی،جو درگاہ شاہ ولی اللہ کے نام سے مشہورہے،آپ نے اپنے والدگرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی،حفظ قرآن کی بھی سعادت پائی، اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی،والد کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس وتدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہوگئے۔ 1143ھ میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے مشائخ سے اسناد حدیث حاصل کیں۔ 1145ھ کو دہلی واپس آئے،آپ بہترین مصنف تھے، مشہورکتب میں فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن فارسی، الفوز الکبیرفی اصول التفسیر، مؤطاامام ملک کی دوشروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ،ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشايخ الحرمين اورالارشادالی مہمات الاسنادعربی)[30] (مشہورکتب ہیں۔([31])

(5)شیخ محمد وفد اللہ مکی مالکی رحمۃ اللہ علیہ محدث وقت حضرت شیخ محمد بن محمد بن سلیمان رودانی مالکی کے فرزندتھے،والدصاحب کے علاوہ شیخ حسن بن علی عجیمی اورشیخ عبداللہ بن سالم بصری سے استفادہ کیا،والدصاحب کی وفات کے بعدمکہ شریف میں ان کے وارث قرارپائے، شیخ عبدالقادرجیلانی سحاقی([32])1150ھ میں حج کرنے مکہ شریف آئے تو ان سے ملاقات کی۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے 1144ھ میں مکہ شریف گئے تو مؤطاامام مالک اول تا آخرپڑھی،اورحضرت شیخ محمد رودا نی کے طریق پر مرویات اور سلاسل صوفیہ میں اجازت حاصل کی۔([33])

۞ عالمِ کبیر، مسند العصرحضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع الاول 1049ھ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ المکرَّم 1113ھ کو وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عباس)[34] (رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے سوسے زائدعلماوصوفیا کے شاگرد، حافظ قراٰن، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی،صوفیِ کامل،مسندِ حجاز،استاذالاساتذہ، اور 60 سے زائد کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجدحرم،مسجدنبوی اورمسجدعبداللہ بن عباس (طائف) میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔([35])

۞خاتم المحدثین حضرت امام عبداللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049ھ کو مکہ میں ہوئی اوریہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا،جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے،بصرہ میں نشوونما پائی، پھرمکہ شریف میں آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجدحرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے،زندگی بھریہ معمول رہا،کثیر علمانے آپ سے استفادہ کیا،آپ جیدعالم دین،محدث وحافظ الحدیث اورمسند الحجازتھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری)[36] ( یادگار ہے۔([37])

(6) حضرت شیخ شمسُ الدّین ابوعبداللہ محمد بن محمد بن سلیمان رودانی مالکی رحمۃ اللہ علیہ مراکش کےعلاقے تارُودَنْت (صوبہ سوس ماسہ)میں 1037ھ کو پیداہوئے،ابتدائی تعلیم وہاں حاصل کرکے آپ الجزائر، مصر، شام، استنبول اور حجازمقدس آئے اوراولاً مدینہ شریف پھر مکہ مکرمہ میں مقیم ہوگئے، یہیں شادی کی، آپ کا شمار مکہ شریف کی مؤثرومقبول شخصیات میں ہوتاتھا،آپ حدیث، فقہ، حساب،فلکیات اورعربی ادب میں ماہرتھے۔آپ نے دینی خدمات میں امامت،فتاوی نویسی اورتدریس کو منتخب فرمایا،تحریروتصنیف میں بھی مصروف رہے،آپ کی سات تصانیف میں سے جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد)[38] (آپ کی پہچان ہے،اس عظیم محدث کا وصال 10ذیقعدہ 1094 ھ کو دمشق میں ہوااورجبل قاسیون میں تدفین کی گئی۔([39])

(7)حضرت شیخ ابوالعزائم سلطان بن احمدسلامہ مزّاحی مصری ازہری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 985ھ کو مصرمیں ہوئی اوریہیں 17جمادی الآخر1075ھ میں وصال فرمایا، تدفین مجاورین قبرستان قاہرہ میں ہوئی،آپ نے علمائے عصرسے حفظ قرآن وقرأت، حدیث وفقہ و تصوف اور دیگر علوم حاصل کرکے 1008ھ میں فارغ التحصیل ہوئے اور جامعۃ الازہر میں تدریس کرنے لگے، آپ امام الائمہ، بحرالعلوم، استاذالفقہاء والقراء، محدث وقت، علامہ زمانہ،نابغہ عصر،زہدوتقویٰ کے پیکر،مرجع خاص وعام، عابدوزاہد اور کئی کتب کے مصنف تھے۔([40])

(8)شیخ الاسلام،ناصرالملت والدین حضرت امام شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 939ھ اور وفات 1032ھ میں ہوئی، آپ نے مدرسہ باسطیہ مصر میں داخلہ لےکر علم دین حاصل کیا،جیدعلمائےمصرسے استفادہ کرکے محدث وفقیہ بننے کی سعادت پائی،حدیث وفقہ میں آپ کی کئی تصانیف ہیں،ان میں سے فتح الغفور بشرح منظومۃ القبور)[41]( مشہور ہے۔([42])

(9)شیخ الاسلام حضرت امام نجم الدین ابوالمواہب محمدبن احمدغیطی سکندری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 910ھ اوروفات 981ھ میں ہوئی، آپ کا تعلق مصرکےصوبہ سکندریہ کے مرکزی شہر سکندریہ سے ہے،آپ نے دیگر مشائخ بالخصوص شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے علم حدیث،فقہ اورتصوف وغیرہ حاصل کرکے اسناداورتدریس وافتاء کی اجازات لیں،آپ امام الوقت، مسندالعصر، محدث زمانہ، مرشد گرامی، محبوب ِ خاص وعام،بغیرلومۃ لائم برائی سے منع کرنے والے اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ بهجة السامعين والناظرين بمولد سيد الاولين والآخرين اورقصۃ المعراج الصغری( [43])وغیرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب ہیں۔([44])

(10)شرف الملت والدین حضرت شیخ عبدالحق بن محمدبن عبدالحق سنباطی قاہری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت جمادی الاولیٰ یا جمادی الاخریٰ 842ھ کو ایک علمی گھرانے میں بمقام سنباط (صوبہ مغربی،مصر)میں ہوئی،آپ سنباط میں حفظ قرآن کرنے کےبعد قاہرہ میں آگئے یہیں بقیہ اسلامی تعلیم حاصل کی،بعدتعلیم آپ درس و تدریس،تصنیف وتالیف اورافتامیں مصروف ہوگئے،نہ صرف مصربلکہ حجازمقدس کے علمانے بھی آپ سے استفادہ کیا۔آپ کا وصال یکم رمضان 931ھ کوشبِ جمعہ مکہ مکرمہ میں ہوا۔بعدجمعہ حرم میں نمازجنازہ پڑھائی گئی،جم غفیرنے نمازجنازہ میں شرکت کی،آپ کوجنت المعلیٰ میں دفن کیاگیا،آپ کی تصانیف میں شرح ابن عبد الحق السنباطی على حرز الامانی([45] )بھی شامل ہیں۔([46])

(11)حسام الملت والدین حضرت امام ابومحمد حسن بن محمد بن ایوب نسابہ حسنی حسینی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت قاہرہ مصرمیں 767ھ کے آخرمیں ہوئی،حفظ قرآن کے بعدعلمائے مصر، علمائے حرمین اورعلمائے شام وبیت المقدس سے علوم اسلامیہ حاصل کئے،فراغت کے بعد اسکندریہ شہر میں تدریس وتصنیف میں مصروف ہوگئے،خلق کثیرنے آپ سے استفادہ کیا، نفائس الدُّرَر فِی فَضَائِل خير الْبشر اور نزہۃ القصاد فِی شرح منظومۃ الاقتصاد([47]) آپ کی تصانیف ہیں۔آپ فقیہ وفاضل، صابروشاکر، متواضع وسلیم الفطرت اور مرجع خاص وعام تھے۔ ابتدائے صفرالمظفر 866ھ کو وصال فرمایا،تدفین باب النصر (قاہرہ مصر) سے باہر ہوئی۔([48])

(12)بدرالملت والدین حضرت شیخ حسن بن محمدبن حسن نسابہ حسینی شافعی رحمۃ اللہ علیہ شیخ حسن بن محمدبن ایوب رحمۃ اللہ علیہ کے عم محترم، مصرکے جیدعالم دین، محدث، صوفی، خاندان سادات نسابہ کے ولی،خانقاہ رکنیہ بیبرس کے سجادہ نشین اورصاحب تصنیف بزرگ تھے،آپ کی کتاب آداب الحمام یادگارہے۔آپ کی ولادت 739ھ اوروفات 16شوال809 ھ کوہوئی۔([49])

(13)شمس الملت والدین حضرت شیخ ابوعبداللہ محمدبن جابرقیسی وادی آشی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 673ھ اوروفات 749ھ کو تونس میں ہوئی،آپ کے آباء و اَجْدَادْکا تعلق اندلس کے علاقے وادی آش سے تھا،آپ نے والدصاحب سے علم دین حاصل کرنے کے بعد سفرشروع فرمایا: بغداد،موصل،دمشق اوراسكندریہ مصرکے علماءسے استفادہ کیا۔ ان کے شیوخ کی مرویات پر مشتمل کتاب برنامج ابن جابر الوادی آشی([50]) مطبوع ہے۔آپ جید عالم دین،محدث وقت،حسن اخلاق اور پروقار شخصیت کے مالک، علمائے عرب ومغرب کے استاذ،صاحب دیوان شاعراورمرجع وقت تھے۔([51])

(14)حضرت امام ابومحمدعبداللہ بن محمد طائی اندلسی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت رمضان 603 ھ کو ہوئی اوروصال 11ذیقعدہ 702ھ کو ہوا، آپ محدث ومسند، عالم وادیب، صدوق وحسن الحديث اورعلم وعمل کے جامع اورفقیہ مالکی تھے۔([52])

(15)ابن بقی حضرت امام ابوقاسم احمد بن یزیدبقوی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ یورپ میں خلافت اموی کے اہم عالم دین،رأس العلماء،فقیہ مالکی،محدث زمانہ،صاحب دیوان اسلامی شاعر، بہترین ادیب،قاضی وقت،حسن اخلاق کے پیکر،عادل وثقہ روایِ حدیث اورکتاب الآيات المتشابہات)[53]( کے مصنف تھے،آپ کی پیدائش ذیقعدة 537 ھ کو ہوئی اور وصال 15 رمضان 625 ھ کوبروزجمعہ قرطبہ اندلس میں ہوا۔([54])

(16)حضرت امام ابوعبداللہ محمد بن عبدالحق بن احمد بن عبدالرحمن خزرجی قرطبی مالکی کا تعلق قرطبہ سے ہے آپ محدث کبیر، صدوق وحسن الحدیث راوی، فقیہ مالکی اور زاہدین زمانہ سے تھے۔آپ کا وصال تقریباً560ھ کو ہوا۔([55])

(17)حضرت امام ابوعبداللہ محمد بن فرج مولی ابن طلاعی قرطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 404ھ اوروفات رجب 497ھ میں ہوئی، آپ حافظ الحدیث،شیخ الفقہاء، مفتی اندلس،استاذالعلما و الفقہاء،مصنف کتب،صاحب فصاحت وبلاغت اورجذبۂ اعلاء کلمۃ الحق سے مالامال تھے۔آپ نے کتاب اقضیۃ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم( [56])لکھنے کی سعادت حاصل کی۔([57])

(19)ابن مغیث حضرت امام قاضی ابوولیدیونس بن عبداللہ الصغّار قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 338ھ کو ہوئی اوررجب 429ھ کو وصال فرمایا،آپ فقیہ مالکی،محدث ومسند، قاضی القضا،شیخ اندلس اورمصنف کتب ہیں۔ آپ مدینۃ الزہرا([58])کے کافی عرصہ خطیب رہے پھر قاضی، وزیر اور قرطبہ کے خطیب مقررہوئے،آپ بہترین واعظ،اچھے مدرس، زہد وتقوی کے جامع،خشوع وخضوع کے پیکر، ثقہ وحجت کے درجے کے راوی حدیث اور یادگاراسلاف تھے،خلق کثیرنے آپ سے علمی وروحانی استفادہ کیا۔آپ کی تحریرکردہ آٹھ کتب میں سے ایک الموعب فی شرح الموطا ہے جو مؤطاامام مالک کی شرح ہے مگریہ مکمل نہیں ہے۔([59])

(20)حضرت امام ابوعیسی یحیی بن عبداللہ لیثی قرطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ ذیقعدہ 287ھ میں پیداہوہے اور8رجب 367ھ کو وصال فرمایا،آپ محدث ومسندالاندلس،جلیل القدرامام اوراندلس کے شیخ المالکیہ تھے،آپ اندلس کے کئی شہروں کے قاضی رہے،چاردانگ عالم سے کثیرطلبۂ علم دین مؤطا پڑھنے کے لیے آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔([60])

(21)حضرت امام ابومروان عبیداللہ بن یحییٰ لیثی مالکی اندلسی رحمۃا للہ علیہ کی پیدائش اندلس کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی، والدگرامی سے علوم اسلامی حاصل کئے، والدصاحب کی وفات کے بعد حرمین طیبین اورمصرکا سفرکیا اوروہاں کے علماسے استفادہ کیا، واپس آکر مسند تدریس پرفائز ہوئے،کثیر علما نے استفادہ کیا،آپ جیدعالم اندلسی، فقیہ مالکی، مسند قرطبہ، ذہین وفطین، جود و سخاوت کے مالک،کثیرالصدقات واحسانات، صاحب ثروت و وقار اورمرجع خاص وعام تھے، رمضان 298ھ کووصال فرمایا۔([61])

(22)حضرت امام ابومحمد یحیی بن یحیی بن کثیرلیثی مصمودی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 152ھ کو قرطبہ میں ہوئی،مقامی علماسے علم دین حاصل کرنے کے بعد مدینہ شریف آئے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردگی اختیار کی، امام مالک ان کے طلب علم میں انہماک و توجہ اور عقل وشعورسے بے حد متأثرتھے،حصول علم کے بعد وطن واپس آئے تو خاص وعام کے مرجع بن گئے،درس و تدریس، افتا و قضا میں مصروف ہوئے،خلیفہ وقت آپ کی عظمت وفقاہت کا قائل تھااورآپ کے مشورے سےامورِ حکومت چلاتا تھا، آپ کی ذات سے یورپ میں فقہ مالکی کی خوب اشاعت ہوئی،آپ تبع تابعی،فقیہ مالکی،مسندعصر،عبادت گزار وپرہیزگار، عکس امام مالک اور بارعب و باوقار تھے۔آپ کا وصال 22 رجب234ھ کو قرطبہ میں ہی ہوا۔([62])

(23)عالم مدینہ،کروڑوں مالکیوں کے امام حضرتِ سیِّدنا امام مالِک بن انس اصبحی حمیری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 93ھ میں مدینۂ منورہ میں ہوئی اور 14ربیعُ الاوّل 179ھ کو وصال فرمایا۔ قبر شریف جَنَّۃُ البَقِیْع میں ہے۔ آپ، صحابی رسول حضرت ابوعامراصبحی([63] ) رضی اللہ عنہ کےپڑ پوتے، تابعی بزرگ،کثیرالعبادات،محدث وفقیہ،ادب و حیا کے پیکر، عمدہ فہم ووسیع علم والے متبع سنت،مؤثر ترین شخصیت کے مالک، درازعمر اورعالی سند والے تھے،آپ کی کتاب ”مؤطا امام مالک“ احادیثِ مبارکہ کے مقبول و معروف مجموعوں میں قدیم ترین ہے۔زندگی بھرمدینہ شریف میں رہ کر حدیث وفقہ کی تدریس میں مصروف رہے۔([64])

۞مؤطاامام مالک میں ہرحدیث پاک سند کے ساتھ ہے پہلی سند کے روایان کامختصرتعارف ملاحظہ کیجئے:

(24)اعلم الحفاظ حضرت امام ابوبکرمحمدبن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب زہری قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 50ھ میں مدینہ شریف میں ہوئی،آپ قوی الحافظہ اورحریص علم تھے، علمائے مدینہ(صحابہ وتابعین)سے بھرپوراستفادہ کیا،تمام اسلامی علوم وفنون بالخصوص علم قرآن،علم حدیث،علم سنن،علم فقہ،علم مغازی وغیرہ علوم میں مہارت تامہ رکھتے تھے،آپ سے 2ہزار2سوحدیثیں مروی ہیں،دن رات درس وتدریس اورکتب بینی میں مصروف رہتے،دمشق کے قاضی بھی مقررہوئے، 17رمضان 124ھ کو بمقام شغب میں وصال فرمایا، یہ مقام حجازکے آخراورفلسطین کے شروع میں ہے۔([65])

(25)فقیہ مدینہ حضرت ابوعبداللہ عروہ بن ز بیراسدی قریشی رحمۃ اللہ علیہ حواری رسول حضرت زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کے بیٹے،ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے،جلیل القدرتابعی،کثیر الاحادیث،ثقہ راوی حدیث،متقی وورع، صابر وشاکر، جوّاد و سخی، دولت دنیا سے بے نیاز، عابد و زاہد، کثرت سے روزے رکھنے والے اور مدینہ منورہ کے سات فقہاء([66] )سے ہیں،آپ درس وتدریس میں مصروف رہتے، عبادت وتلاوت کی کثرت کرتے اور مسلمانوں کے مرجع تھے،حدیث کے ساتھ مغازی کو بھی بیان کیا کرتے تھے،مزاج میں بڑی نفاست وصفائی تھی،آپ کی ولادت 23ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اوروصال 94ھ  کو نواحِ مدینہ میں ہوا۔([67])

(26)صحابی ابن صحابی حضرت بشیربن ابومسعود خزرجی انصاری حارثی رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات ظاہری میں پیداہوئے،زیارت نبوی کی سعادت پائی، جنگ صفین میں یہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لشکرمیں شامل تھے۔([68])

(27)صحابی رسول حضرت ابومسعود عقبہ بن عمروبن ثعلبہ بدری خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ ثانی([69]) میں ایمان لائے،اس وقت آپ کی عمرشرکا میں سب سے کم تھی، تمام غزوات میں شریک ہوئے،آپ کا شمارعلماصحابہ میں ہوتاہے، مدینہ شریف سے کوفہ منتقل ہوگئے اور وہیں سکونت اختیارکرلی،آپ کسی ملامت کی پرواہ کئے بغیرنیکی کا حکم فرماتے، آپ کا وصال 40ھ یا دورِ حکومت ِ امیرمعاویہ)[70](میں ہوا،مقام وفات مدینہ شریف یا کوفہ تھا،آپ کے بیٹے حضرت بشیرسمیت کثیرتابعین نے آپ سے احادیث روایت کی ہیں۔آپ عالم،مجاہد،محدث اورپرجوش مبلغ اسلام تھے۔([71])

(28) ہمارے پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء کو وادی بطحا مکہ شریف کے معززترین قبیلے قریش میں ہوئی اور12ربیع الاول 11ھ مطابق 12 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں وصال ظاہری فرمایا۔ آپ وجہ ٔ تخلیق کائنات،محبوب خدا،امام المرسلین،خاتم النبیین اورکائنات کی مؤثرترین شخصیت کے مالک تھے،آپ نے 40 سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا،13سال مکہ شریف اور10سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی،اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب قرآن کریم نازل فرمائی۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمارمرتبہ دُرُوداورسلام ہوں۔([72])

حواشی



[1]... القول البدیع ،ص278

[2]... مناقب الشافعی للبیہقی، 1/507، المجروحين،1/42

[3]... تفسیرمیزان الادیان،1/ 77

[4] ...ان کا نام عجالہ نافلہ فارسی صفحہ ،19 پر دوجگہ آیا ہے ایک مقام پر محمدبن محمد بن سلمان اوردوسرے مقام پر محمدبن محمد بن محمد سلمان لکھا ،دیگرکئی کتب میں محمد بن سلمان پر تحریرہے ،آپ کی اپنی کتاب صلۃ الخلف کے صفحہ 21پرآپ خود تحریرفرماتے ہیں :یقول العبدالفقیرمحمد بن محمد بن سلیمان ۔اس لیے سند میں اس کے مطابق کردیا ہے ۔

[5] ...اس کتاب کا مکمل نام ’’صلۃ الخلف بموصول السلف ہے ،اس کے کل صفحات 588ہیں ،اسے دارالغرب الاسلامی بیروت نے 1408ھ مطابق 1988ء میں شائع کیا ہے ،اس میں حضرت شیخ محمدبن محمد بن سلیمان رودانی مالکی نے اپنی اسنادواجازت اورمشائخ کا تفصیلی ذکرفرمایا ہے ۔

[6] ... ان کا نام عجالہ نافلہ فارسی صفحہ ،19 پرسلطان محمد بن احمد مزاحی لکھا ہے مگرعربی کتب میں سلطان بن احمد تحریرہے ۔

[7] ... عجالہ نافلہ کے صفحہ 20 اور تفسیرمیزان الادیان(1/ 73)میں ان کا نام حسن بن ایوب النسابہ ہی لکھا ہے مگرعربی مصادرمیں آپ کا نام نسب کے ساتھ یہ تحریرہے : حسن بن محمدبن حسن بن ادْرِيس بن حسن بن عَلی بن عِيسَى بن عَلی بن عِيسَى بن عبد الله بن محمد بن الْقسم بن يحیی بن يحيى الْبَدْر بن نَاصِر الدّين بن حصن الدّين بن نَفِيس الدّين الحسنی سبط الشريف النسابۃ حسن بن عَلی بن سُلَيْمَان الْحُسَيْنی۔( درر العقود الفريدة فی تراجم الاعيان المفيدة، 2/6)اس لیے سند میں نام درست کردیا ہے ۔

[8] ... عجالہ نافلہ کے صفحہ 20 اورتفسیرمیزان الادیان(1/ 73)میں امام محمد بن جابرکی نسبت الوادیاشی لکھی ہے جبکہ عربی کتب میں الوادی آشی مرقوم ہے اوریہی درست ہے ،اس لیے سند میں اسے درست کردیاہے ۔

[9] ... وادی آش(Guadix) اندلس (اسپین )کے شہرغرناطہ(Granada) کے مشرق میں 53کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ایک قدیمی شہرہے ۔

[10]... عجالہ نافلہ کے صفحہ 20 اورتفسیرمیزان الادیان(1/ 73)میں آپ کا نام ’’ محمد بن عبدالرحمن بن عبد الحق‘‘لکھا ہے جبکہ درست ’’ محمد بن عبدالحق بن احمد بن عبدالرحمن‘‘ہے اس لیے سند میں اسے درست کردیا ہے ،آپ کا نسب یہ ہے : ابو عبد الله محمد بن عبد الحق بن احمد بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد الحق، الخزرجی القرطبی۔ (سیر اعلام النبلاء، 15/170)

[11] ... تفسیرمیزان الادیان(1/ 73)ان کی نسبت ’’الحزرمی ‘‘لکھا ہواہے جوکہ کاتب کی غلطی ہے،درست نسبت ’’الخزرجی ‘‘ہے ،اس سند میں درست کردیاہے مزیددیکھئے: عجالہ نافلہ ،ص 20۔

[12] ... تفسیرمیزان الادیان(1/ 73)میں ان کے والدصاحب کا نام ’’فرح‘‘لکھا ہے جو کہ کاتب کی غلطی ہے درست ’’فرج‘‘ہے اس لیے سند میں درست کردیا ہے ۔مزیددیکھئے : عجالہ نافلہ ،ص 20

[13] ... تفسیرمیزان الادیان(1/ 73)میں یہاں ’’ ابن الطابع‘‘جبکہ عجالہ نافلہ ،ص 20میں ’’ ابن الطلاع‘‘لکھاہے ،اس لیے سند میں ابن الطلاع کردیا ہے ۔آپ کو ابن الطلاع کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ کے والدصاحب ابوبکر محمد بن یحیی بکری الطلاع کے غلام تھے ،بعض نے آپ کو ابن الطلاء بھی لکھاہے ۔( سیر اعلام النبلاء، 14/238، الاعلام للزرکلی، 6/328)

[14] ... الارشاد الى مہمات علم الاسناد،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی عربی تالیف ہے اس کے کل 63صفحات ہیں ، اسے دار الآفاق قاہرہ مصرنے 1430 ھ مطابق 2009ء میں شائع کیا ہے ۔ 

[15]... تفسیرمیزان الادیان،1/ 73،74،عجالہ نافلہ ،19،20۔

[16] ... امام المحدثین نے دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہورکو 1924ء میں مسجدوزیرخان اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا ،پھر یہ جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادےمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی صاحب اس کی وسیع وعریض عمارت اندورن بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو، اَبْ بھی قائم ہے ۔

[17] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس میں 344فتاویٰ ہیں، 87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے تحریرکردہ ہیں، مکتبۃ العصرکریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005ء کو بہت خوبصورت کاغذپر شائع کئے ہیں ، جن کے کل صفحات 864ہیں ۔

[18] ... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ واراخبارالفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[19] ... اتحاف الاخوان باسانیدمولانا فضل الرحمن کے مؤلف حضرت شیخ احمدابوالخیرجمال العطارمکی احمدی (ولادت ،1277ھ مطابق1861ء،وفات تقریبا1335ھ مطابق 1916ء)رحمۃ اللہ علیہ ہیں ،انھوں نے اسے 28شعبان 1306ھ میں تالیف فرمایا، اس کے 24صفحات ہیں، پروگریسوبکس لاہورنے اسے ملفوظات شاہ فضل ِ رحمن گنج مرادآبادی کےآخرمیں 2020ء کو شائع کیا ہے ۔

[20] ... جدِّ اعلیٰ حضرت،مفتی رضا علی خان نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ عالم، شاعر،مفتی اورشیخ طریقت تھے۔1224ھ میں پیدا ہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ میں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس اتقیا،ص17، مطبوعہ دہلی)

[21]... تذکرۂ مُحدّثِ سورتی، ص53-57،تجلیات ِ تاج الشریعہ، ص86

[22] ... کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین،تفسیری اردوترجمہ ہے ،جسے پاک وہند اوربنگلادیش میں مقبولیت حاصل ہے اس پر صدرالافاضل علامہ سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیرالقراٰن اورحکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی نے نورالعرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی ہیں ۔

[23]... اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کثیرعلوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریباً ایک ہزارکتب ورسائل شاہدہیں ،مگرآپ کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب سے تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلدتو آپ کی حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی، یک بعددیگرےاس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں،1988ء میں مفتی اعظم پاکستان، استاذالعلمامفتی عبدالقیوم ہزاروی (بانی رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اسکی تخریج وترجمہ کا کام شروع کیا،جس کی تکمیل 2005ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

[24]... جدالممتارعلی ردالمحتار،اعلیٰ حضرت کا فقیہ حنفی کی مستندکتاب ردالمحتارالمعروف فتاویٰ شامی پر عربی میں حاشیہ ہے جس پر دعوت اسلامی کے تحقیقی وعلمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور2006ء کو اسے 7 جلدوں میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے ،۲۰۲۲ء میں اس کی اشاعت دارالکتب العلمیہ بیروت سے ہوئی۔

[25] ... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے، المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی)نےپہلی مرتبہ اسے ۲۰۱۲ء میں 446صفحات پرشائع کیا ہے ،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

[26] ...حیاتِ اعلیٰ حضرت،ص، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص،282، 301

[27]... تاریخ خاندان برکات، ص37تا46،مشائخ مارہرہ کی علمی خدمات ،221

[28] ...آپ کی یہ پانچوں تصانیف فارسی میں ہیں ، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس کا موضوع ردرفض ہے،تفسیرعزیزی کا نام تفسیرفتح العزیزہے، جو چارجلدوں پر مشتمل ہے، بستا ن المحدثین میں محدثین کے مختصرحالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عاجلہ نافعہ فن حدیث پرہے جس میں آپ نے اپنی اسنادواجازت کو بھی ذکرفرمایا ہے ،اس کے 26صفحات ہیں ۔

[29]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[30]...پہلی چارکتب کا موضوع نام سے واضح ہے،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اورمصلحتوں کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے، اس میں شخصی اوراجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیاہے ،کتاب ازالۃ الخفاء ردرفض پرہے،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائدومعمولاتِ اہل سنت پر کاربند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسنادواجازات اورآپ کے مشائخ کے تذکرے پرمشتمل ہیں ۔

[31]... الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،ص7تا11،تواریخ آئینہ تصوف،217،تذکرہ علمائے ہند،458

[32] ... شیخ عبدالقادرجیلانی السحاقی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق مراکش سےہے،انھوں نے اپنا سفرنامہ رحلۃ الاسحاقی یا الرحلۃ الاحجازیہ کے نام سے لکھا ،مزیدمعلومات حاصل نہ ہوسکیں ۔)صلۃ الخلف،ص ،15،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،ص ، (37

[33]... فہرس الفہارس،1/428،429، ظفرالمحصلین،ص44،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،37،38

[34]... ترجمان القرآن، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ہاں ہجرت سے تین سال قبل مکہ میں ہوئی اورآپ نے 67ھ کو طائف میں وصال فرمایا ،مزارمبارک مسجدعبداللہ بن عباس طائف کے قریب ایک احاطے میں ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لیے علم وحکمت،فقہ دین اور تاویل کتاب مبین کی دعافرمائی،آپ علم تفسیر، حدیث ،فقہ،شعر،علم وارثت وغیرہ میں کامل دسترس رکھتے تھے ،آپ کے القابات بحرالعلوم، امام المفسرین، ربانیِ امت ،اجمل الناس ،افصح الناس اوراعلم الناس ہیں ۔ (تنویرالمقیاس،ص7تا32)

[35]... مختصرنشرالنور،167تا173،مکہ مکرمہ کے عجیمی علما،ص6تا54

[36] ... ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری، 18 جلدوں پر مشتمل صحیح بخاری کی اہم شرح ہے جو بطورحوالہ استعمال ہوتی ہے، اسے دارالنوادردمشق نے شائع کیاہے۔

[37]... مختصر نشر النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،18تا20

[38] ... جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد،احادیث مبارکہ کا بہترین مجموعہ ہے جس میں 15کتب احادیث ،بخاری ،مسلم ،ترمذی ،نسانی ،ابوداؤد،ابن ماجہ ،مؤطاامام مالک،معجم طبرانی کبیر، اوسط، صغیر،مسندابی یعلی،مسندبزار،مسنداحمد،سنن دارمی اورزوائدزرین کی مرویات کو جمع کردیا گیا ہے ۔

[39]... صلۃ الخلف بموصول السلف،7تا12، خلاصۃ الاثر 4/204، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ، ص37، فہرس الفہارس،1/425

[40]... امتاَعُ الفُضَلاء بتَراجِم القرّاء،2/135تا139، خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی العشر، 2/210

[41] ... امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عالم برزخ کے بارے میں رسالہ منظومۃ القبورلکھا ،علامہ احمدبن خلیل سبکی رحمہ اللہ علیہ نے اس کی شرح فتح الغفورکے نام سے تحریرفرمائی، دارالنوادربیروت اوردارالمنہاج جدہ عرب نے اسے شائع کیا ہے ۔

[42]...خلاصۃ الأثرفی اعیان القرن الحادی عشر، 1/185

[43] ...دونوں کا موضوع نام سے واضح ہے ۔

[44]... شذرات الذہب، 8/474، الاعلام للزرکلی، 6/6، معجم المؤلفین، 3/83

[45] ...قرآت سبعہ کے موضوع پر سیّد القُرّاء حضرت امام قاسم بن فِیرُّہ شاطبی شافعی رحمۃاللہ علیہ(538ھ تا 590ھ)نے کتاب حرزالامانی تحریرفرمائی جسے متن الشاطبیہ کے نا م سے شہرت دوام حاصل ہے اس پر شیخ عبدالحق سنباطی نے حاشیہ لکھا ہے ۔

[46]... الکواکب السائرۃ باعیان المئۃ العاشرۃ، 1/222، الضوء اللامع لاھل القرن التاسع، 4/37تا39

[47]... نفائس الدُّرَر فِی فَضَائِل خير الْبشر کاموضوع تونام سے ظاہرہے اورالقصاد فِی شرح منظومۃ الاقتصاد، اسلامی عقائد پر مشتمل مفتی احمد بن عماداقفہسی شافعی (750ھ تا808ھ) رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الاقتصاد فی كفایۃ الاعتقاد کی شرح ہے،اقتصادبھی امام غزالی(450 ھ تا505ھ) کی کتب الاقتصاد فی الاعتقادکی شرح ہے ۔

[48]... ہدیۃ العارفین،1/286، الضوء اللامع لاہل القرن التاسع،3/121

[49]... درر العقود الفريدة فی تراجم الاعيان المفيدة، 2/6،الضوء اللامع لاہل القرن التاسع، 3/ 123

[50]... کتاب ’’برنامج ابن جابر الوادی آشی‘‘مصطلحات ومعانی کے موضوع پرہے، اس کی ایک جلداور407صفحات ہیں ۔

[51]... معرفۃ القراء الکبار، 3/1496، غایۃ النہایۃ، 2/106، الوافی بالوفیات، 2/209

[52]... الوافی بالوفيات،17/316، الدررالکامنہ،2/303،بغیۃ الوعاۃ،2/20

[53] ... کتاب الآيات المتشابہات کے بارے معلومات حاصل نہ ہوسکیں ۔

[54]...سیر اعلام النبلاء، 16/234تا236، الاعلام للزرکلی، 1/271، بغیۃ الوعاۃ، 1/399

[55]... سیر اعلام النبلاء، 15/170

[56] ...یہ کتاب اصول فقہ کے موضوع پر ہے،اسی میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہونے والے مقدمات اوراس پر جو فیصلے ہوئے ہیں ،انہیں بیان کیا گیا ہے ،اس موضوع پریہ کتاب ماخذکی حیثیت رکھتی ہے ، اسے کئی مطابع نے شائع کیا ہے ۔

[58] ... اموی خلیفہ عبد الرحمٰن سوم الناصر (912ءتا961ء)نے کم وبیش324ھ مطابق 936ء میں قرطبہ سے 13کلومیٹرجانب مغرب جبال العروس کے شمالاجنوبا ایک شہرآبادکیا جس میں کئی باغات، مسجدیں، انتظامیہ، سرکاری دفاتر، ٹکسال، کارخانے، چھاؤنیاں، گھر اور غسل خانے تھے۔400ھ مطابق1010ء میں یہ ایک خانہ جنگی میں تباہ ہوگیا تھا۔1910ء کے بعد سے شروع کی گئی کھدائی میں اس کے آثارظاہرہوئے ،جسے دیکھنے سیاح دنیا بھرسے آتے ہیں ،یہاں ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے ۔

[59]... سیر اعلام النبلاء، 13/369، الدیباج المذھب، 2/374، شذرات الذھب، 3/403، ھدیۃ العارفین، 2/572، الاعلام للزرکلی، 8/262

[60]... سیر اعلام النبلاء، 12/362، تاریخ علماء الاندلس، 2/189، الاحاطۃ فی اخبار غرناطۃ، 4/319، العبر فی خبر من غبر، 2/128

[61]... سیر اعلام النبلاء، 11/72، الوافی بالوفیات، 19/277

[62]...سیر اعلام النبلاء، 9/200، الدیباج المذھب، 2/352، وفیات الاعیان لابن خلکان، 5/117تا119

[63] ...ایک قول کے مطابق حضرت ابوعامرنافع بن عمرواصبحی حمیری رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں ،غزوہ بدرکے علاوہ آپ نے تمام غزوات میں شرکت کی،ان کے بیٹے حضرت ابوانس مالک بن نافع رحمۃ اللہ علیہ کبارتابعین سے ہیں انھوں نے حضرت عمر،حضرت طلحہ، حضرت عائشہ ،حضرت ابوہرير ہ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم سے احادیث کی سماعت کی ،یہ ان چارافرادمیں سے تھے جنہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کفن ودفن میں شرکت کی ،دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوعامرنبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال ظاہری میں موجودتھے مگران کو زیارت مصطفی کی سعادت حاصل نہیں ہوئی البتہ انھوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے احادیث کی سماعت کی ،اس لیے یہ تابعی ہیں ۔ (تزیین الممالک بمناقب الامام مالک،19)

[64]... سیر اعلام النبلاء، 7/382، 435، تذکرۃ الحفاظ، 1/154، 157

[65]... سیر اعلام النبلاء، 6/133تا152، تذکرۃ الحفاظ، 1/83تا85، البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر، 6/489تا493، تہذیب التہذیب لابن حجر، 7/420تا423

[66] ... فقہائے سبعہ سے مراد مدینہ منورہ کے سات ہم عصرتابعین ہیں جن کے ذریعے فتوے اورفقہ کا علم پھیلا، یہ تمام تابعین سے افضل ہیں، نام اسمائے گرامی یہ ہیں :حضرت عروہ بن زبیر،حضرت سعیدبن مسیّب(وصال،94ھ)، حضرت ابوبکربن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام (وصال،94ھ) حضرت خارجہ بن زیدبن ثابت (وصال،98ھ)حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود(وصال98ھ) حضرت قاسم بن محمدبن ابوبکرصدیق (وصال،108ھ) اورحضرت سلیمان بن یسار(وصال،109ھ)۔فقہائے سبعہ کے اسمائے گرامی کسی پرچے میں لکھ کرگیہوں میں رکھ دئیے جائیں تو گھن(اناج کا کیڑا)نہیں لگے گا،اگردردسروالے کے سرپرلٹکائیں یا باندھیں یا یہی سات نام پڑھ کرسردم کریں ،تودردِ سرجاتارہے گا۔(حیات الحیوان،2/53،فیضان سنت ،1/402)

[67]... سیر اعلام النبلاء، 5/356تا368، تہذیب التہذیب لابن حجر، 5/545تا549، طبقات ابن سعد، 5/136تا139، تذکرۃ الحفاظ، 1/50

[68]...اسدالغابہ،1/292،293

[69] ...بیعت عقبہ ثانیہ اعلانِ نبوت کے بارہویں سال ہوئی ،اس میں مدینہ منورہ کے ۱۳افرادنے اسلام قبول کیا اورنبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دست ِ اقدس پر بیعت کی ۔(سیرت سیدالانبیاء ،132)

[70] ...صحابی رسول حضرت امیرمعاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہماکی ولادت اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے ہوئی اورآپ کا وصال 22رجب 60ھ میں ہوا۔(سیراعلام النبلاء،4/285،314)آپ کاتب وحی، مجاہدفی سبیل اللہ ،مکے معززفردوسردار،حلیم وبردبار،ذہین وفطین اورمعاملہ فہمی میں کمال رکھتے تھے، آپ کا زریں دورِ حکومت 41ھ تا 60ھ تک محیط ہے ،اس میں بےشمارفتوحات ہوئیں اور اسلامی سرحدیں دوردورتک پھیل گئی ،اس دورکا امن وامان بھی بہترین تھا۔مزیدمعلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’فیضان امیرمعاویہ ‘‘کا مطالعہ کیجئے ۔

[71]... الاصابہ،4/432،سیراعلام النبلا،4/117تا119۔

[72]... مدارج النبوت،2/14،آخری نبی کی پیاری سیرت، 143تا145