کسی نے کیا
خوب بات کہی کہ طوطا مرچیں کھا کر بھی میٹھے بول بولتا ہے اور انسان میٹھا کھاکر
بھی کڑوی باتیں کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مزاج کے خلاف بات ہونے پر غصہ آ ہی جاتا
ہے مگر ایسی صورتحال میں جوش کے بجائے ہوش سے کام لیتے ہوئے صبر و برداشت کا دامن
تھامنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھئے! ہمارا پیارا دین اسلام ہمیں نرمی اختیار کرنے کا
ذہن دیتا ہے اور نرمی ایک بہت ہی پیاری خوبی ہے جو انسان کو رحم پر ابھارتی، ظلم
سے روکتی ہے، تکبر سے بچاتی اور انسان میں عاجزی اختیار کرنے کی صفت پیدا کرتی ہے۔
نرمی اختیار کرنے کے لئے دل کو نرم کرنا ضروری ہے کیوں کہ انسان کا دل ہی اس کے
تمام اعضاء کا بادشاہ ہے جب یہ نرم ہوگیا تو ہمارے کردار میں بھی خود بخود نرمی
پیدا ہو جائیگی۔
دل کی اس
بیماری سخت مزاجی کا علاج بہت ضروری ہے کیوں کہ کوئی بھی دل بیماریوں سے خالی نہیں
ہوتا اور اگر دلوں کو یونہی بغیر علاج کے چھوڑ دیا تو مزید بیماریاں جنم لیں گی
اور انسان پر غالب آئیں گی۔ دلوں کے علاج کیطرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے
ارشاد فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ
زَكّٰىهَاﭪ(۹) (پ
30، الشمس: 9) ترجمہ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا۔
اور اسکے علاج
کو چھوڑ دینے کی مذمّت کے بارے میں فرمایا: وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰)
(پ
30، الشمس: 10) ترجمہ کنز الایمان: اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔
ہمارے بزرگان
دین سامنے والے کے کڑوے انداز اور سخت جملے سن کر بھی کبھی غصہ میں نہ آتے بلکہ
صبر سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں
لوگوں کے دلوں میں اتر جایا کرتی تھیں۔
یاد رکھئے!
میٹھی زبان بولنے میں کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا اور ساتھ ہی فائدہ بھی ہوتا ہے جبکہ
سخت زبان کے استعمال کرنے میں صرف گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ
جو بہنیں سخت مزاج یا بہت غصیلی ہوتی ہیں دیگر بہنیں ان کے قریب آنے، ان سے بات
کرنے سے کتراتی ہیں ایسی سخت مزاج بہنوں کو معاشرے اور خاندان بھر میں عزت کی نگاہ
سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ بعض اوقات تو ان کے والدین بہن بھائی بھی ان کی اس سخت
مزاجی کی وجہ سے ان سے بیزار رہتے ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے ان کے خلاف طرح طرح کی
باتیں بھی کی جاتی ہیں مثلاً: فلانی سے بچ کر ہی رہو بڑی سخت مزاج ہے، کڑوی زبان
والی ہے، چھوٹی سی بات پر سب کے سامنے ذلیل کر دیتی ہے وغیرہ۔
ہمیں اپنی ذات
پر غور کرنا چاہیے کہ: کہیں ہمارے بارے میں بھی لوگوں کے یہی تاثرات تو نہیں؟ کہیں
ہم بھی اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے لوگوں کو خود سے بد ظن تو نہیں کررہیں؟
اللہ نہ کرے
اگر جواب ہاں میں ہو تو اپنے مزاج میں نرمی پیدا کرنے کی کوشش کیجئے کہ جس کا دل
نرم ہوتا ہے اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے
کیا خوب کہا ہے:
ہے
فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں
ہر
بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
یعنی نرمی سے
دنیا و آخرت کے وہ کام بنتے ہیں جو سختی سے نہیں بنتے، نرمی سے دشمن بھی دوست بن
جاتے ہیں، لوہا نرم ہو کر ہتھیار بن جاتا ہے، زمین نرم ہو کر قابل کاشت ہو جاتی ہے
اور انسان نرم ہوکر ولی بن جاتا ہے۔
اللہ رحیم و
کریم سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں سے سخت مزاجی کو دور فرمائے اور ہمیں نرمی جیس
خوبصورت صفت سے مالا مال فرمائے۔ آمین