سخت مزاج کا مطلب ہے وہ شخص جو سخت طبیعت کا ہو، نرمی اور لچک کم رکھتا ہو، یا اپنی رائے اور اصولوں پر سختی سے قائم رہے۔ ایسا شخص اکثر ضدی، سنجیدہ، یا جذباتی طور پر کم لچکدار ہو سکتا ہے۔ یہ اصطلاح مثبت اور منفی دونوں معنوں میں استعمال ہو سکتی ہے، جیسے کسی کے پختہ اصولوں کی تعریف کے لیے یا کسی کی سخت گیری پر تنقید کے لیے۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں سخت مزاجی کی مذمت اور نرمی و حسن اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی نرم مزاجی کو اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا: فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-  ( پ 4، اٰل عمران: 159) ترجمہ: پس اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان کے لیے نرم ہو گئے اور اگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ الآیۃ

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ سخت مزاجی لوگوں کو دور کرتی ہے، جبکہ نرمی اور درگزر سے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں سخت مزاجی کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے ہدایات دی گئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ نرمی، بردباری اور حسن اخلاق کی تعلیم دی اور سخت مزاجی سے منع فرمایا۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ اجر عطا کرتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا اور کسی اور چیز پر بھی نہیں دیتا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)

جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم کردیا گیا۔ (مسلم، ص1072، حدیث 6598)

نبی ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین شخص وہ ہوگا جسے لوگ اس کے برے اخلاق (سخت مزاجی اور بدزبانی) کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ (مسلم، ص1072، حدیث 6596)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)

اللہ پاک ہمیں تمام کاموں میں نرمی کرنے کی سعادت عطا فرمائے اور سخت مزاجی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین