سخت مزاجی
انسان کی شخصیت کو متنازعہ اور غیر پسندیدہ بنا دیتی ہے۔ یہ نہ صرف دوسروں کے ساتھ
تعلقات میں دراڑ ڈالتی ہے بلکہ فرد کے ذہنی سکون اور روحانی سکون کو بھی متاثر
کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نرم مزاجی، حسن اخلاق اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی
اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ہم سخت مزاجی کی مذمت اور نرم مزاجی کی
اہمیت کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سخت
مزاجی کی تعریف: سخت
مزاجی سے مراد وہ رویہ ہے جس میں انسان دوسروں کے ساتھ بے رحمی، تند مزاجی اور غیر
ضروری غصہ کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنے ماحول میں بے سکونی پیدا کرتے
ہیں بلکہ دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال نہیں رکھتے۔ سخت مزاجی انسان کی
شخصیت کو بھی متکبر اور عاجزی سے عاری بناتی ہے اور لوگوں کے دلوں کو بھی اس سے
ٹھیس پہنچتا ہے۔
اسلام میں
انسان کی شخصیت کا مرکز حسن اخلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی بار اپنے
رسول حضرت محمد ﷺ کی نرم مزاجی اور حسن اخلاق کی تعریف کی ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے قرآن میں فرمایا: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ
اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ
فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا
مِنْ حَوْلِكَ۪- ( پ 4، اٰل عمران: 159) ترجمہ: پس اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان کے لیے نرم ہو
گئے اور اگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔
الآیۃاس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی نرم مزاجی کی تعریف کی ہے اور یہ
بھی بتایا ہے کہ اگر آپ سخت مزاج ہوتے تو آپ کے ماننے والے آپ کے ارد گرد سے بکھر
جاتے۔ اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نرم مزاجی انسانوں کو آپس میں جوڑے رکھتی
ہے، جبکہ سخت مزاجی ان کے درمیان دوریاں پیدا کرتی ہے اور اگر ہم بھی دینی کام و
نیکی کی دعوت عام کرنا چاہتے ہیں یا انفرادی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی سخت
مزاجی سے اجتناب کرتے ہوئے نرم مزاجی اختیار کرنی ہوگی۔
قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا اور انہیں نرم گفتار
اختیار کرنے کی ہدایت دی، ارشاد ہوتا ہے: فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا
لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴) (سورة طہٰ، آیت 44) ترجمہ: پس
تم دونوں اس سے نرم کلام کہنا، شاید وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔
یہ آیت اس بات
کو واضح کرتی ہے کہ حتیٰ کہ فرعون جیسے جابر اور ظالم شخص کے ساتھ بھی نرم رویہ
اپنانا ضروری ہے تاکہ اسے نصیحت پہنچائی جا سکے۔
سخت مزاجی کی
مذمت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند
فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جوسختی پر عطانہیں فرماتا بلکہ نرمی
کے سوا کسی بھی شے پر عطا نہیں فرماتا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)
یہ حدیث ہمیں
بتاتی ہے کہ نرم مزاجی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں آسانی اور سکون لاتی ہے۔
سخت
مزاجی کی نقصانات:
1۔
انسانی تعلقات میں دراڑ: سخت مزاجی انسان کے تعلقات کو متاثر
کرتی ہے اور دوسروں کو دور کر دیتی ہے۔
2۔
روحانی سکون کی کمی: سخت مزاجی انسان کو اندرونی سکون نہیں دیتی، اور وہ
اپنی زندگی میں بے سکونی کا شکار رہتا ہے۔
3۔
دوسروں کے جذبات کی تکلیف: سخت مزاجی سے دوسروں کے جذبات کو تکلیف
پہنچتی ہے، جس سے انسان کی اخلاقی و روحانی حالت متاثر ہوتی ہے۔
سخت
مزاجی کیسے دور کریں : جن کا مزاج سخت ہو یا جن کی طبیعت میں سخت مزاجی ہو
انہیں چاہیے کہ بتکلف اپنے مزاج کو نرمی کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہیں، اپنا رویہ
و لہجہ نرم رکھنے کی لگاتار کوشش کرتے رہیں، بتکلف یہ کوشش کرتے کرتے ان شاء اللہ
سخت مزاجی سے جان چھوٹ جائے گی، اس کے لئے چاہیے کہ نرم مزاجی کے فضائل و برکات
اور سخت مزاجی کے برے اثرات کو بھی ذہن میں رکھیں، تاکہ دل نرم مزاجی کی طرف جلد
گامزن ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ کے صدقے اچھا اخلاق عطا
فرمائے۔