مطالعہ
حُصولِ علم کا ایک بہترین ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ باذوق لوگوں کی رُوح کی غِذا بھی
ہے، ہر ذی شعور پر یہ بات روزِ روشن کی
طرح واضح ہے کہ کسی بھی کام کو اگر اس کے مُقرر کردہ اُصولوں اور درست طریقہ کار کے مطابق اَنجام دیا جائے تو ہی
خاطر خواہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، اِس کے
برعکس دُرست طریقے کے مطابق نہ کرنے سے سوائے وقت کے ضیاع
کے کُچھ حاصل نہیں ہوتا، ذیل میں دُرست انداز
میں مطالعہ کرنے کے کچھ نکات پیش کئے جاتے
ہیں:
(1)
مطالعہ کرنے کا مقصد رِضائے اِلٰہی اور علمِ دین کا حُصول ہونا چاہئے، دوسروں تک پہنچانے کی بھی نیت ہو کہ علم بانٹنے
سے بڑھتا ہے۔
(2)
مطالعہ حتَّی الامکان باوُضو اور قبلہ رُو
بیٹھ کر کیا جائے کہ بے شمار فوائد و برکتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔
(3)
مطالعہ کا آغاز بسم اللہ شریف
اور حمد و صلوٰۃ سے کیا جائے، یہ دعا بھی
پڑھ لیجئے، ان شاءاللہ عزوجل جو پڑھیں گے یاد رہے گا، اَللّٰھُمَّ افْتَحْ عَلَیْنَا حَکْمَتَکَ وَانْشُرْ
عَلَیْنَا رَحْمَتَکَ یَا ذَالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔
(4)
مطالعہ کرنے کے لئے ایسی پُرسُکون جگہ کا اِنتخاب کریں، جہاں شورو غُل اور مطالعہ میں خلل پذیر ہونے والی کوئی رُکاوٹ
نہ ہو۔
(5)دُرست
وقت کا اِنتخاب بھی ضروری ہے، صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے کہ اس وقت ذہن تروتازہ اور پُرسکون ہوتا ہے۔
(6)مُطالعہ
مکمل توجّہ اور دِلجمعی سے کیا جائے، توجّہ
ہٹانے والے کاموں سے پہلے ہی فراغت حاصل کرلیں، بھوک پیاس کا غَلَبہ نہ ہو، طبعی
حاجت مثلاًپیشاب وغیر ہ کی شدّت ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو
لیں۔
(7)مُناسب
روشنی کا بھی اِنتظام ہو، کوشش کیجئے کہ روشنی اُوپر کی جانب سے آ رہی ہو،
پچھلی طرف سے آنے میں بھی حرج نہیں، جبکہ
تحریر پر سایہ نہ پڑھتا ہو، مگر سامنے سے آنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے۔(علم
و حکمت کے 125 مدنی پھول، صفحہ نمبر74)
(8)
مسلسل ایک ہی جگہ دیکھنے سے آنکھیں اور گردن تھک جاتی ہیں، لہذا وقفے وقفے سے گردن اور آنکھوں کی ورزش کر لیجئے، اِس کا طریقہ یہ ہے کہ آنکھوں کو دائیں بائیں، اوپر
نیچے گھُمائیے، اِسی طرح گردن کو بھی آہستہ آہستہ حرکت دیجئے۔( علم و حکمت کے 125
مدنی پھول، صفحہ 75)
(9)
ایک ہی مضمون کو زیرِ مُطالعہ رکھنے سے بعض اوقات طبیعت اُکتا جاتی ہے، لہذا اپنے حسبِ حال دو یا زائد مضامین کا اِنتخاب
کرلیجئے، جب ایک مضمون سے طبیعت اُکتا جائے تو دوسرے کا مطالعہ کر لیجئے۔
(10)دورانِ
مطالعہ اُکتا ہٹ اور تھکاوٹ سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کُچھ دیر مطالعہ کرنے
کے بعد تین سے چار منٹ کا وقفہ کرکے چہل قدمی اور کچھ ذِکر و دُرود کر لیا جائے۔
(11)
دورانِ مطالعہ ڈائری اور قلم پاس رکھیں تاکہ اَہَم نِکات نوٹ کر سکیں، ذاتی کتاب ہونے کی صورت میں ضرورتاً انڈر لائن
بھی کیا جا سکتا ہے۔
اللہ عزوجل
ہمیں خُوب مُطالعہ کرنے کا ذوق و شوق عطا
فرمائے۔
علم ایک وسیع
سمندر ہے ہر مسلمان کو چاہئے وہ دنیا کے
کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اس کے لیے مطالعہ بے حد ضروری ہے، کسی نے بہت ہی خوبصورت بات کہی ہے کہ زندگی میں
کامیاب ہونا ہے تو سیکھنے کی حالت کو برقرار رکھو، نیز علم دین حاصل کرنے کا ایک
بہترین ذریعہ مطالبہ بھی ہے۔مطالعہ دنیاوی
ہو یا دینی مطالعہ کرنے کا درست طریقہ آنا چاہیے :
مطالعہ
کرنے کے اصول :
مطالعہ کرنے کا
انحصار اس پر ہے کہ آپ نے کس چیز کا مطالعہ کرنا ہے تفسیر و حدیث کے مطالعہ
کا انداز الگ تو فقہ کے مطالعے کا انداز الگ ہے چند ایک چیزیں
مطالعے کے لئے ضروری ہوتی ہیں وہ یہ ہیں ۔
مطالعہ
بامقصد ہو:
یعنی غور کر لیا
جائے کہ میں مطالعہ کیوں کر رہا ہوں، یہ مطالعہ مجھے فائدہ دے گا یا نہیں، اس کا
فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کا وقت صحیح استعمال ہوگا ۔سب
سے پہلے فرض علوم کا مطالعہ کریں ایسا نہ ہو کہ تفسیر آپ نے پوری پڑھ لی اور نماز کادرست
طریقہ آپ کو آتا نہیں اور نتیجہ یہ ہو گا کہ نماز ترک کرکے گناہ گار ہوں گے لہذا
جو مطالعہ ضروری ہے اسے پہلے کریں ۔
مطالعہ کرنے کا
وقت منتخب کریں جس میں آپ کو مکمل توجہ حاصل ہوسکے اور اس وقت آپ تھکے ہوئے نہ ہوں
ذہن وغیرہ آپ کا تازہ Fresh ہو،
شور شرابے والی جگہ سے ہٹ کر بیٹھیں یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کریں ۔
جب مطالعہ کر رہے
ہوں تو نہ زیادہ بھوک لگی ہو نہ پانی
وغیرہ کی حاجت ہو نا نیند کی شدت ہو غرض
یہ کہ اپنے آپ کو مکمل فارغ کرکے مطالعہ
کرنے بیٹھیں۔
جب کتاب پڑھی جاتی
ہے تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اس کی فہرست index پڑھتے ہیں اس کے
بعد کتاب کا سرسری مطالعہ کرتے ہیں اور ا س کی ابتدا اور انتہا کو پڑھتے رہتے ہیں
ایک مرتبہ یوں پھر بالاستیعاب جیسے کہتے ہیں یعنی شروع سے آخر تک مکمل توجہ کے
ساتھ پڑھیں، پھر اس کے بعد دوبار فہرست کو دیکھیں اس میں جو
لکھا ہوا ہے۔ اگر آپ کو سمجھ آگیا تو ٹھیک ورنہ جہاں پر بھی آپ کو یہ محسوس ہو کے
شاید یہ رہ گیا تو صرف آپ مسئلہ کو پڑھ لیں۔
اِن شآءَ اللہ اس
انداز میں اگر مطالعہ کریں گے تو آپ کو بہت آسانی بھی ہو گی اور گویا کہ آپ نے
پوری کتاب کونچوڑ کر اپنے اندر اتار لیا۔(بیانات مفتی قاسم عطاری)
علم و مطالعہ کا صحیح ذوق ایسی خدائی نعمت
ہے جو کم ہی خوش نصیبوں کو ملتی ہے، یہ ذوق انسان کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے علم
و فہم میں روز بروز اضافہ کرے اور نت نئے جواہر پاروں سے دامن ظرف کو بھرتا جائے؛
لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کونسا طریقہ کار
اختیار کرے کہ مطالعہ مؤثر اور ثمر آور ہو، مطالعے کے نتائج و فوائد ذہن و دماغ
میں اس قدر راسخ ہوجائیں کہ وہ بہت حد تک مستحضر رہیں، اور انسان اپنی تحریر و
بیان میں بر ملا اسے برت سکے؛ اس لئے مطالعہ کے تئین مندرجہ ذیل چند مفید اور مبنی
بر تجربہ باتیں پیش خدمت ہیں؛ ممکن ہے کسی بندے کی علمی ترقی کا ذریعہ بن جائیں:
پہلی بات: اس
سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ آدمی کو کسی ایسے خاص فن کا انتخاب کرنا چاہئے جو اس
کے ذوق و طبیعت کے مطابق ہو اور ذہن قبول کرنے پر آمادہ ہو، ایک ہی وقت میں کئی
کئی فنون کی کتابیں پڑھنا مضامین کے استحضار میں خلل پیدا کر سکتا ہے، مثلا آپ کا
ذہن اگر ادبی ہے تو ادبیات کو اپنا موضوع بنایئے، یا فقہی ہے اور ذہن مسائل فقہیہ
کی جانب مائل ہے تو فقہیات کو اپنا موضوع بنایئے اور اس پر مطالعہ کو اپناموضوع
بنایئے۔
دوسری بات: یہ کہ
اپنے علم و مطالعہ کا جائزہ لیجیے کہ جس فن کی جانب آپ کا ذہن مائل ہے اس کے بارے
میں آپ کی معلومات کیا ہیں؟ کیا آپ اس کی بنیادی باتوں سے واقف ہیں؟ یا آپ کا علم
و مطالعہ متوسط ہے؟ یا اس فن کی اعلی معلومات آپ کو درکار ہیں؟
تیسری بات: یہ کہ
اپنے جائزہ کے بعد آپ طے کیجئے کہ اب آپ کو کونسی کتاب پڑھنا چاہئے..اپنی دلچسپی
کے مطابق کتاب کا انتخاب کریں، کتاب کے انتخاب کے بعد اس کا مطالعہ اس انداز میں
کیا جائے کہ گویا وہ پہلی بار اور آخری بار پڑھی جارہی ہے، یہ بات ذہن نشین رہنا
نہایت ضروری ہے؛ کہ مطالعہ اس بھروسے پر سرسری نہ کیا جائے کہ دوبارہ پھر پڑھنا
ہے، یا آئندہ پھر پڑھ لیں گے، اکثر حضرات کا علم اسی لئے ناقص رہتا ہے کہ ہر کتاب
کو سرسری طور پر لیتے ہیں اور آئندہ کی امید پر پڑھتے چلے جاتے ہیں اور کتاب ختم
ہونے کے بعد علاوہ چند سرسری معلومات کے کوئی ٹھوس اور مضبوط علم حاصل نہیں ہوتا؛
اس لئے اس وبا سے ذہن و دماغ سے نکالنا از حد ضروری ہے۔
چوتھی بات: یہ کہ
مطالعہ کیسے کیا جائے؟ یہ سوال نہایت اہم ہے اور درست و مفید علم کی بنیاد ہے، مطالعہ
کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب ہاتھ میں لیکر بالکل یکسو ہو کر کسی ایسی جگہ پر بیٹھا
جائے جہاں تشویش ذہنی کا اندیشہ نہ ہو، کتاب کے ساتھ آپ کے داہنی جانب ایک عدد
کاپی اور ایک قلم بھی موجود ہو، اب ایک کام یہ کریں کہ اپنی کتاب کو ذہنی طور پر
مختلف حصوں میں خواہ باب کے اعتبار سے خواہ اوراق کے حساب سے تقسیم کر دیں؛ مثلا
آپ نے جس کتاب کا انتخاب کیا ہے اس میں دو سو صفحات ہیں تو اس کو بیس حصوں میں
تقسیم کر دیجئے اور باری باری دس دس ورق پڑھتے جائیے، لیکن یہ خیال رہے کہ دس
صفحات کے بعد اگلے دس صفحات اس وقت تک آپ نہ پڑھیں جب تک آپ کو ان دس صفحات پر
مکمل یا بہت حد تک دسترس نہ حاصل ہوجائے، آپ کوشش کریں کہ آپ کے پڑھے ہوئے صفحات
اس قدر آپ کے ذہن میں نقش ہوجائیں کہ آپ اب دس صفحات کی تلخیص تقریر یا تحریر کے
ذریعہ کسی کے بھی سامنے رکھنے پر قادر ہوں؛ خواہ یہی دس صفحات آپ کو بار بار پڑھنے
پڑیں۔
پانچوی بات: یہ کہ
چوتھی بات کو آسانی سے برتنے کے لئے آپ قلم اور کاپی کا سہارا لے سکتے ہیں، وہ اس
طرح کہ دوران مطالعہ جو جو باتیں اہم ہوں یا آپ کے لئے نئی معلومات کا درجہ رکھتی
ہوں انہیں آپ پنسل سے نشانزد کر دیں، یا اپنی کاپی پر اس کا اشاریہ لکھ لیں اور
اگر نہایت اہم ہو تو مستقل طور پر کاپی میں نوٹ کر لیں، اور اسے کاپی کے ساتھ خانہ
ذہن میں بھی محفوظ کرنے کی کوشش کریں، اس انداز میں آپ دس صفحات کا مطالعہ کریں
اور آخر میں اندازہ لگائیں کہ ان دس صفحات میں آپ کو کون کون سی نئی باتیں معلوم
ہوئیں اور کون کون سی باتیں پہلے سے معلوم تھیں۔
چھٹی بات: یہ ہے
کہ اس طرح مطالعہ کرنے اور علم کو اپنے سینے میں محفوظ کر نے کے بعد آپ دو کام کر
سکتے ہیں ایک تو یہ ہے کہ آپ اس کی تلخیص تحریرا بھی کر سکتے ہیں جو دیر تک آپ کے
پاس یاد داشت کے طور پر محفوظ ہوجائے گی، دوسرے یہ کہ اپنے دوست و احباب کے سامنے
تقریرا اپنے مطالعے کا نچوڑ رکھ دیں؛ تاکہ انہیں بھی یہ معلومات حاصل ہوجائیں اور
آپ کا مطالعہ بھی پختہ ہوجائے، یہ کام آپ دس صفحات اور چالیس پچاس صفحات کے بعد یا
جیسا آپ مناسب سمجھیں کر سکتے ہیں۔
ساتویں بات: یہ کہ
اس طرح مطالعہ کرنے سے اُکتاہٹ اور بے کیفی بھی پیدا ہوسکتی ہے؛ مگر علم کی پیاس
میں اسے گوارا کرنے کی کوشش اور گوہر معرفت سے دامن دل کو بھرنے کی فکر اس بوجھ کو
ہلکا کر سکتی ہے، نیز اگر ایسی کیفیت پیدا ہو تو آپ شروع شروع میں زیادہ نہ پڑھیں؛
بلکہ جتنا طبیعت کو گوارہ ہو اتنا پڑھیں، یا طبیعت پر زور دیکر پڑھیں مگر گاہے
بگاہے گشت بھی کر لیا کریں یا چائے و کافی کے دو چار کش لے لیا کریں کہ نشاط بر
قرار رہے۔
آٹھویں بات: یہ کہ
اس طرح کم سے کم ایک کتاب پڑھ لینے کے بعد جو علم آپ کو آئے گا اس کی خوشی کا
اندازہ وہی لگا سکتا ہے جسے اس کا تجربہ ہے، لیکن کہیں اس طرح مطالعہ آپ کو باقی
کتابیں پڑھنے سے روک نہ دے؛ اس لئے اکابر اہل علم کو اپنا آئڈیل بنائیں اور ان تک
پہونچنے کی دھن میں لگے رہیں، یاد رہے کہ اونچا ہدف ہی زندگی کی علامت ہے، لہذا
خود کو ہمیشہ علم کا محتاج سمجھئے۔
نویں بات: یہ ہے
کہ اصحاب ذوق، وسیع المطالعہ اور ہمہ گیر شخصیتوں کی صحبت اور ان کی گفتگو سے اپنی
علمی پیاس کو بڑھایئے، دوران گفتگو جن شخصیات یا کتابوں کا ذکر آئے انہیں نوٹ
کیجئے اور کم سے کم ان کتابوں کی زیارت کی ضرور کوشش کیجئے ہوسکے تو اس کتاب کا
مقدمہ یا فہرست ضرور پڑھ لیجیے کہ یہ علم کی وہ کنجی ہے جو آپ کے علمی ذوق کو چار
چاند لگا سکتی ہے ۔
خدا کرے! کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات۔
ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس پڑھنے کے
لیے کتابیں موجود ہیں ورنہ دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں جو ترستے ہیں ان کے پاس پڑھنے
کو کتابیں نہیں ہیں وہ ترستے ہیں کہ ہمیں مطالعہ کے لیے کوئی اچھی کتاب مل جائے
اور ہم اپنےعلم کی پیاس کو ٹھنڈا کر سکیں ، یہ جو وقت اللہ رب العزت نے ہمیں اور آپ کو عنایت کیا ہے تو صرف
فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک حاصل کرلیں،کامیاب وہی شخص ہے جس نے اپنی
زندگی کے لمحات کو پڑھائی اور مفید مطالعہ میں گزارا۔
علم
و مطالعہ کا صحیح ذوق ایسی خدائی نعمت ہے، جو کم ہی خوش نصیبوں کو ملتی ہے، یہ ذوق انسان کو آماده کرتا ہے کہ وہ اپنے علم و
فہم میں روز بروز اضافہ کرے اور نِت نئے جواہر پاروں سے دامنِ ظرف کو بھرتاجائے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اِنسان کو سمجھ میں
نہیں آتا کہ وہ کون سا طریقہ کار اختیار کرے کہ مطالعہ مؤثر اور ثمر آور ہو، مطالعے کے نتائج و فوائد ذہن و دماغ میں اس قدر راسخ ہو جائیں کہ وہ بہت حد تک مستحضر رہیں اور انسان اپنی
تحریر و بیان میں بَرملا اسے برت سکے۔
اس
لئے مطالعہ کے مندرجہ ذیل چند مفید اور
مبنی بَر تجربہ باتیں پیشِ خدمت ہیں، ممکن
ہے کسی بندے کی علمی ترقی کا ذریعہ بن جائیں۔
پہلی بات :
اس
سلسلے میں پہلی بات یہ کہ آدمی کو کسی ایسے خاص فن کا انتخاب کرنا چاہئے، جو اس کے ذوق و طبیعت کے مطابق ہو اور ذہن قبول
کرنے پر آمادہ ہو، ایک ہی وقت میں کئی کئی
فُنون کی کتابیں پڑھنا مضامین کے استحصار میں خلل پیدا کرسکتا ہے، مثلاً آپ کا ذہن اگر اَدبی ہے تو اَدبیات کو
اپنا موضوع بنائیے یا فقہی ہے اور ذہن مسائلِ فقہیہ کی جانب مائل ہے تو فقہیات کو
اپنا موضوع بنائیے اور اس پر مطالعہ کو
اپنا موضوع بنائیے۔
دوسری بات:
یہ
کہ اپنے علم و مطالعہ کا جائزہ لیجئے کہ جس فن کی جانب آپ کا ذہن مائل ہے، اس کے بارے میں آپ کی معلومات کیا ہیں؟؟کیا آپ
اس کی بنیادی باتوں سے واقف ہیں؟؟یا آپ کا علم و مطالعہ متوسط ہے؟؟یا اس فن کی اعلٰی معلومات آپ کو درکار ہیں؟؟
تیسری بات:
یہ
کہ اپنے جائزے کے بعد آپ طے کیجئے کہ اب آپ کو کون سی کتاب پڑھنا چاہئے، مثلاً آپ کا ذہن سیرت کی جانب مائل ہے اور اس سے
آپ کو لگاؤ ہے اور آپ کو بنیادی معلومات نہیں ہیں یا کم ہیں تو اس سلسلے میں بنیادی معلومات کے
لئے سیرتِ آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہت ہی پیاری کتاب
"سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
"اور "سیرتِ رسولِ عربی صلی اللہ
علیہ وسلم"کا مطالعہ کرنا چاہئے، نیزاس سلسلے میں کسی صاحبِ علم اور علم و مطالعہ کے
شائق باذوق سے مشورہ اور کتابوں کا اِنتخاب
بےحد مفید ہو سکتا ہے۔
چوتھی بات :
کتاب
کے اِنتخاب کے بعد اس کا مطالعہ اس اَنداز
میں کیا جائے کہ وہ پہلی بار اور آخری بار پڑھی جا رہی ہے، یہ بات ذہن نشین رہنا
نہایت ضروری ہے کہ مطالعہ اس بھروسے پر سَرسَری نہ کیا جائے کہ دوبارہ پھر پڑھنا
ہے یا آئندہ پھر پڑھ لیں گے، اکثر حضرات
کا علم اِسی لئے ناقص رہتا ہے کہ ہر کتاب کو سَرسَری طور پر لیتے ہیں اور آئندہ کی
اُمید پر پڑھتے چلے جاتے ہیں اور کتاب ختم ہونے کے بعد علاوہ چند سَرسَری معلومات کے کوئی ٹھوس اور مضبوط علم حاصل نہیں ہوتا، اِس لئے اِس وَبا سے ذہن و دماغ نکالنا اَزحد
ضروری ہے ۔
پانچویں بات:
یہ
کہ مطالعہ کیسے کیا جائے ؟؟یہ سوال نہایت اہم اور درست و مفید علم کی بنیاد ہے، مطالعہ کا طریقہ
یہ ہے کہ کتاب ہاتھ میں لے کر بالکل یکسُو ہو کر کسی ایسی جگہ پر بیٹھا جائے، جہاں تشویشِ ذہنی کا اندیشہ نہ ہو، کتاب کے
ساتھ آپ کے داہنی جانب ایک عدد کاپی اور ایک
قلم بھی موجود ہو، اب ایک کام یہ کریں کہ
اپنی کتاب کو ذہنی طور پر مختلف حصّوں میں خواہ باب کے اعتبار سے، خواہ اوراق کے حساب سے تقسیم کردیں، مثلاً آپ نے جس کتاب کا انتخاب کیا ہے، اس میں دو سو صفحات ہیں تو اس کو بیس حصّوں میں
تقسیم کر دیجئے اور باری باری دس دس
ورق پڑھتے جائیے، لیکن یہ خیال رہے! کہ دس صفحات کے بعد اگلے دس صفحات اس وقت تک آپ نہ پڑھیں، جب تک آپ کو ان دس صفحات پر مکمل یا بہت حد تک دسترس نہ حاصل ہو
جائے، آپ کوشش کریں کہ آپ کے پڑھے ہوئے
صفحات اس قدر آپ کے ذہن میں نقش ہو جائیں کہ آپ اب دس صفحات کی تلخیص، تقریر یا تحریر کے ذریعے کسی
کے بھی سامنے رکھنے پر قادر ہوں، خواہ یہی
دس صفحات آپ کو بار بار پڑھنے پڑھیں۔
چھٹی بات:
یہ
کہ پانچویں بات کو آسانی سے برتنے کے لئے آپ قلم اور کاپی کا سہارا لے سکتے ہیں، وہ اس طرح کے دورانِ مطالعہ جو جو باتیں اہم ہوں یا آپ کے لئے نئی معلومات کا درجہ رکھتی ہوں، انہیں آپ پنسل سے نشان زَد کر دیں یا اپنی کاپی پر اس کا اشاریہ لکھ دیں اور اگر نہایت اَہم ہو تو مستقل طور پر
کاپی میں نوٹ کر لیں اور اسے کاپی کے ساتھ خانہ ذہن میں بھی محفوظ کرنے کی کوشش کریں،
اس انداز میں آپ دس صفحات کا مطالعہ کریں
اور آخر میں اندازہ لگائیں کہ ان دس صفحات میں آپ کو کون کون سی باتیں پہلے سے
معلوم تھیں اور کون کون سی نئی باتیں معلوم ہوئیں۔
ساتویں بات :
یہ
کہ اس طرح مطالعہ کرنے اور علم کو اپنے سینے میں محفوظ کرنے کے بعد آپ دو کام کر
سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ آپ اس کی تلخیص
تحریر بھی کر سکتے ہیں، جو دیر تک آپ کے
پاس یادداشت کے طور پر محفوظ ہو جائے گی، دوسرا
یہ کہ اپنے دوست و احباب کے سامنے تقریر اپنے مطالعے کا نچوڑ رکھ دیں،
تاکہ انہیں بھی معلومات حاصل ہو جائیں اور
آپ کا مطالعہ بھی پُختہ ہو جائے، یہ کام
آپ دس صفحات اور چالیس پچاس صفحات کے بعد یا جیسا آپ مناسب سمجھیں کر سکتے ہیں۔
آٹھویں بات:
یہ
کہ اِس طرح مطالعہ کرنے سے اُکتاہٹ اور بے کیفی بھی پیدا ہو سکتی ہے، مگر علم کی پیاس
میں اسے گوارا کرنے کی کوشش اور گوہر ِمعرفت سے دامنِ دل کو بھرنے کی فکر اس بوجھ کو ہلکا کر سکتی ہے، نیز اگر ایسی
کیفیت پیدا ہو تو آپ شروع شروع میں زیادہ نہ پڑھیں، بلکہ جتنا طبیعت کو گوارہ ہو اتنا پڑھيں یا طبیعت پر زور دے کر پڑھیں، مگر گاہے بگاہے گشت بھی کر لیا کریں یا چائے و کافی کے دو چار
کش لے لیا کریں کہ نشاط برقرار رہے۔
نویں بات :
یہ
کہ اس طرح کم سے کم ایک کتاب پڑھ لینے کے بعد جو علم آپ کو آئے گا، اس کی خوشی کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جسے اس کا
تجربہ ہے، لیکن کہیں اس طرح مطالعہ آپ کو
باقی کتابیں پڑھنے سے روک نہ دے، اس لئے اَکابر
اہلِ علم کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور ان تک پہنچنے کی دُھن میں لگے رہیں، یاد رہےکہ
اونچا ہدف ہی زندگی کی علامت ہے۔
دسویں بات :
دسویں
بات یہ ہے کہ اصحابِ ذوق، وسیعُ المطالعہ اور ہمہ گیر شخصیتوں کی صحبت اور اِن کی
گفتگو سے اپنی علمی پیاس کو بڑھائیے، دورانِ گفتگو جن شخصیات یا کتابوں کا ذکر آئے
انہیں نوٹ کیجئے اور کم سے کم کتابوں کی زیارت کی ضرور کوشش کیجئے، ہو سکے تو اس کتاب کا مقدّمہ یافہرست ضرور پڑھ لیجئے
کہ یہ علم کی وہ کُنجی ہے، جوآپ کے عِلمی ذوق کو چار چاند لگا سکتی ہے۔
دُرُود
شریف کی فضیلت:
اللہ پاک کے آخری نبی ، محمد عربی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس
نے مجھ پر 10 (دس) ہزار مرتبہ درودِ پاک پڑھا اللہ پاک اس پر 100 رحمتیں نازل فرماتا ہے۔
مطالعہ
کیسے کریں؟:
ایک دانش ور
کہتے ہیں : کتابوں کا مطالعہ ذہن کو روشنی دیتا ہے اور تمام معلومات کی Processing
کے بعد انسان جو تخلیق کرتا ہے ۔ اسے (علم )کہتے ہیں۔
مطالعہ
کے فوائد: ’’سیکھنے کی نیت سے تفصیلی طور پر پڑھنا مطالعہ کہلاتا ہے‘‘
٭مطالعہ کرنا
انسان کے اندر تحقیقی اور تجزیاتی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے جسکے نتیجے میں انسان دینی،
قومی اور بین الاقوامی امور پر واضح سوچ رکھنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔
٭پڑھنے کی
مہارت ایک شخص کو بات چیت کرنے اور تحریری زبان سے معنیٰ حاصل کرنے کی طرف راغب
کرتی ہے۔
٭آپ کے ذخیرہ
الفاظ اور فہم (سمجھ) کو بڑھاتا ہے ۔
٭دماغ کے
رابطے کو بہتر بناتا ہے ۔
٭آپکی تحریری
صلاحیتوں کو بہتر کرتا ہے ۔
٭مطالعہ ذہنی
اور اخلاقی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے ۔
٭دوسرے لوگوں
کے ساتھ ہمدری کا جذبہ دیتا ہے ۔
٭ ڈپریشن (Depression)
کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔
٭ مطالعہ سے انسان اپنے مقاصدِ حیات کو متعین
کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ! ’’جو لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں
کو پالیتے ہیں اور ان کے مطابق مشاغل کو اختیار کرتے ہیں اسے انسان ہی آسمان کے
درخشندہ ستاروں کاروپ دھارتے ہیں‘‘
مطالعہ کے دوران ایسے انسان کی زندگی کو پڑھنا جس نے اپنی
زندگی میں رکاوٹوں کو عبور کرکے کامیابی حاصل کی ہوتو اس سے آپ کاعزم بڑھتا ہے۔
اگر آپ مطالعہ کی عادت کواپناتے ہیں تو آپ کو ان کے علاوہ بہت سے فوائد حاصل
ہونگے ان شاء اللہ عزوجل ۔
مطالعہ
کیوں کریں؟:
چونکہ مطالعہ کرنا (کُتب بینی) علم حاصل کرنے کا ایک اہم
ذریعہ ہے اور قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر ہمیں علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی
ہے۔ علم ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے
کا حکم دیا۔ علم ہی کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا۔
علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے
کہ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جو پہلی وحی
نازل ہوئی اس کی ابتداء ” (اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ) ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا “ سے ہوئی۔ سرکار مدینہ ، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم یعنی: علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت
) پر فرض ہے۔
اس حدیث پاک سے اسکول اور کالج کی دنیوی تعلیم مراد نہیں
بلکہ ضروری دینی علم مراد ہے۔ مندرجہ بالا حدیث پاک اور آیت کریمہ سے ہم پر علم
حاصل کرنے کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے اور علم کی افادیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا
سکتا ہے۔
علم
کس طرح حاصل کیا جائے :
علم دین
کے حصول کے لیے متعدد ذرائع ہیں مثلاً
(1)کسی جامعہ
کے شعبے درس نظامی میں داخلہ لے کر باقاعدہ طور پر علم دین حاصل کرنا۔
(2) علمائے کرام کی صحبت (Company) میں
رہ کر علم دین سیکھنا۔
(3) دینی کتب کا معالعہ کرنا۔
(4) علمائے کرام کے بیانات سننا وغیرہ ۔
ہم ان میں سے جتنے زیادہ ذرائع اپنائیں گے ان شاء اللہ عزوجل اسی قدر ہمارے لیے مفید ہوگا اور ہمارے
علم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ آیئے بزرگانِ دین کا شوق مطالعہ ملاحظہ کرتے ہیں۔
1۔امام
مسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا شوق علم :
ایک دن
کسی علمی مجلس میں حدیث پاک کی مشہور کتاب ’’مسلم شریف‘‘ کے مولف امام بن حجاج
قُشَیری علیہ رحمۃاللہ القوی سے کسی حدیث کے بارے میں استفسار کیاگیا تو آپ نے
گھر آکر وہ حدیث تلاش کرنا شروع کردی قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا بھی رکھا ہوا تھا۔
آپ حدیث کی تلاش کے دوران ایک ایک کھجور اٹھا کر کھاتے رہے دوران مطالعہ امام
مسلم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے استغراق اور انہماک کا یہ عالم
تھا کہ کھجوروں کی مقدار کی جانب آپ کی توجہ نہ ہو سکی اور حدیث ملنے تک کھجوروں
(Dates) کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا ۔
غیر ارادی (Unintentionally) طور پر اتنی زیادہ کھجوریں کھا لینے کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئے
اور اسی مرض میں انتقال ہوگیا۔ اللہ عزوجل کی
ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہمارے بے حساب مغفرت ہو۔
2۔
امیر اہلسنت امت برکاتہم العالیہ کا شوق مطالعہ :
امیر اہلسنت امت برکاتہم العالیہ کے شوق مطالعہ کا یہ
عالم ہے کہ آپ اس قدر منہمک ہوکر مطالعہ فرماتے ہیں کہ بار ہا ایسا ہوا کہ کتاب
گھر کے اسلامی بھائیوں میں سے کوئی اسلامی بھائی کسی مسئلے کے حل کے لیے آپ کی
خدمت میں حاضر ہوئے لیکن مطالعہ میں مصروف ہونے کی بناء پر آپ کو اس کی آمد کی
خبر نہ ہوئی اور کچھ دیر بعد اتفاقاً نگاہ اٹھائی تو اس اسلامی بھائی نے اپنا
مسئلہ عرض کیا آپ نا صرف خود مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں بلکہ اپنے مریدین و متوسلین
اور محبین کو بھی دینی کُتب کے مطالعہ کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں۔
ان سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے
اکابرین علیہم رحمۃ اللہ المبین وقت کی
دولت کو سامانِ آخرت بالخصوص علم دین کے انمول ہیروں کی خریداری میں صرف کیا کرتے
تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ :۔
علم ؔمیں بھی وہ سرور ہے لیکن
یہ وہ منت ہے جس میں خَور نہیں
ڈاکٹر اقبال
مطالعہ
کرنے کا انداز:
سب سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ جس کتاب یا رسالہ کاآپ نے انتخاب
کیا ہے ۔کیا اس کا مطالعہ کرنا آپکو فائدہ دے گا یا نہیں ؟ کیا آپ بامقصد مطالعہ
کر رہے ہیں یا نہیں۔ کتاب کا انتخاب دیکھیں اگر آپ نے ابھی شروع کرنا ہے مطالعہ
تو آپکو ایک ایسی کتاب کا انتخاب کرنا چاہیے جس کا علم حاصل کرنا آپ پر فرض ہے ۔
لہذا سب سے پہلے اسلامی عقائد کا سیکھنا فرض ہے ۔ اس کے بعد نماز کے فرائض و شرائط
اور ان باتوں کا علم ہونا کہ نماز کس طرح درست ہوتی ہے اور کس طرح ٹوٹ جاتی ہے۔
فرض علوم کا مطالعہ کریں اور تفصیلی (Detail) طور پر معلومات حاصل کرنے کے لیے علمائے
اہلسنت سے رابطہ کریں کہ کس کتاب کا سب سے پہلے مطالعہ کیا جائے اور اس کے بعد کس
کا ۔ اسی طرح جیسے اگر کوئی پانچویں جماعت کا طالبِ علم ہے تو اسے پانچویں جماعت کی
ہی کُتَب پڑھائی جاتی ہے نہ کہ اسے Direct میٹرک کی کتابیں پڑھائی جائے۔
یہ ہی معاملہ دینی کُتب میں ہوتا ہے ۔ اس کے لیے علمائے
اہلسنت سے مربوط ہو جائے کہ آپکو کس عمر میں کس کیفیت میں کس کتاب کا مطالعہ کرنا
چاہیے۔ اب جب آپ ایک بلکہ صحیح کتاب کا انتخاب کر چکے ہیں تو اب مطالعہ کیسے کیا
جائے؟
شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم
العالیہ مطالعہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ آپ اپنے روزانہ (Daily) مطالعہ کا وقت مقرر (Fix)فرما لیں
اور جب آپ مطالعہ کرنے بیٹھے تو ہر کام سے فارغ ہو کر بیٹھے۔ مطالعہ پرسکون ماحول
میں کریں اور اگر بھوک لگ رہی ہے تو پہلے کھانا کھا لیں اور اگر قضائے حاجت ہے تو
اس سے بھی فارغ ہوجائے اور اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ زیادہ بہتر ہے کہ آپ
مطالعہ کتاب سے کریں کیونکہ دورِ حاضر میں (Digital Media) کی وجہ سے بہت ساری کُتب pdf format میں
آسانی سے میسر ہوجاتی ہے اور مطالعہ کرتے
وقت اپنے ہاتھ میں Pencil رکھیں کیونکہ اگر آپ کو کوئی اہم نکات لگے
تو اس پرنشان لگالیں۔
مطالعہ کرنے سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرلیں مثلاً:
٭اللہ عزوجل کی
رضا اور حصولِ ثواب کی نیت سے مطالعہ کروں گا/گی۔
٭مطالعہ کرنے سے پہلے حمدو ثناء کی عادت بنایئے۔
٭ اور جو
بھلائی کی بات پڑھیں اسے ثواب کی نیت سے دوسروں تک پہنچاؤں گا /گی۔
٭ اور مطالعہ
قبلہ روخ بیٹھ کر کروں گا/گی۔
اب سب سے پہلے کتاب کے شروع میں فہرست (List)
ہوتی ہے سب سے پہلے اسے پڑھیے پھر کتاب کا سرسری مطالعہ کریں یعنی ہر موضوع کا
ابتدائی اور آخری Paragraph پڑھیے۔ پھر ایک بار لفظ بہ لفظ مطالعہ کریں
پوری توجہ کے ساتھ پھر ایک بار دوبارہ
سرسری مطالعہ کریں اور پھر فہرست کو دیکھیں کہ کیا آپکو ہر موضوع کی سمجھ آگئی
ہے۔ اگر آپ ایسے کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یوں سمجھ لیجئے کہ آپ نے کتاب کو
نچوڑ کراپنے اندر اتارلیا The best
way to read a book.
اگر ہم دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ معاشرے میں مطالعہ
(Book Reading) کا بہت کم رجحان ہے اور اگر کسی کو مطالعہ
کا شوق ہوتا ہے تو اس کا دل کرتا ہے کہ جلدی جلدی ڈھیروں ڈھیر کتابیں ختم ہوتی
جائے اور زیادہ سے زیادہ کتابیں ختم کرنے کے لیے جلدی جلدی پڑھ لیتا ہے ۔ اگر اس
طرح کوئی پانچ (5) دن میں دس کتابیں ختم
کرلیں تو اسکو اتنا زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا لیکن مندرجہ ذیل طریقے سے اگر کوئی
مطالعہ کرتا ہے تو اسکا 10 دن میں پانچ کتابیں ختم کرنا تو اسکے لیے یہ 10 نہیں
بلکہ 100 کتابوں سے بڑھ کر بہتر ہوتا ہے اور اس طرح مطالعہ کرنے سے آپکو ہمیشہ یاد
رہے گا اور پختہ کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے علم کو استعمال کرتے رہے تاکہ
بھولنے کے Chances بالکل کم ہو جائیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر آپ کسی اور طریقے سے
مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے آپکو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ فائدہ تو کچھ نہ کچھ حاصل
ہوگا اگر 100% یاد نہ رہے تو یقینا
50% یاد رہے گا۔
مستقل
مزاجی :
مستقل
مزاجی اپنے مطالعہ میں پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے جو ٹائم (Time)
آپ نے اپنے مطالعہ کا مقرر کیا ہے آپ کا دل چاہے یا نہ چاہے کچھ مطالعہ ضرور
فرمائے اور ایک دن کا بھی ناغہ نہ ہونے دیں ان شاء اللہ عزوجل اس طریقے سے آپکو مستقل مزاجی حاصل ہوگی
بے شک تھوڑا تھوڑا پڑھیں مگر پوری توجہ کے ساتھ پڑھے۔
حدیث شریف ہے :’’بہتر عمل وہ ہے جس پر تم مداومت کرو‘‘
اس سے
ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مستقل مزاجی اختیار کرنے کے لیے روز مرہ مطالعہ کرنے کیلئے
اپنی عادت بنائیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ :ذہن کو صحت مند رکھنے کیلئے مطالعہ
کرنا اسی طرح ضروری ہے جسطرح جسمانی Fitness کے لیے ورزش (Excercise)
ضروری ہے۔
بعض
اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کا یاد کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے، لیکن حَددرجہ کوشش کے باوجود ایک بھی لفظ ذہن نشین
کرنا مشکل ہوتا ہے اور یاد نہ کرنے کی وجہ سے ناکامی کا سایہ ہمارے پیچھے لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہم ترقی کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتے،
کسی بات کے ذہن نشین نہ ہونے کی صورت میں
ان چند چیزوں کا اِزالہ کردیا جائے تو یاد کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے، کسی بھی چیز کو یاد کرنے کے دوران چند اُمور کا
خصوصی خیال رکھئے۔
1۔جو چیز یاد کرنا چاہیں اسے بغور سنیں:اہم
ترین گفتگو میں ذہنی طور پر شریک ہونے کی
بجائے صرف جسمانی طور پر شریک ہونا "غائب
دماغی" کہلاتاہے، غائب دماغی انسان کا وہ مرض ہے، جو
اِنسانی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر آہستہ آہستہ لکڑی کی طرح بوسیدہ اور ناقابلِ
استعمال بنا دیتا ہے، لہذا کسی بات کو سُنتے
وقت یا کسی تحریر کو پڑھتے وقت پوری توجّہ
نہ ہو تو اس بات کا ذہن سے جلدی نکل جانے کا اِمکان ہے اور غَلَط مفہوم ذہن میں
محفوظ ہونے کا بھی اِحتمال ہے، مکمل توجہ دینا بھی مطلوبہ چیز ذہن نشین کرنے کے لیے
مدد گار ثابت ہوگا۔
2۔اچھی طرح سمجھ کر یاد کریں:جب بھی کُچھ
سنیں یا مطالعہ کریں تو اس بات کو مدِّنظر رکھ کر سنئے یا پڑھئے، کہ اگر یہ سب کچھ مجھے بیان کرنے کا کہا جائے یا
کسی کو سمجھا نے یا بتانے کی حاجت پیش آئے تو میں بحُسنِ خوبی بیان کر سکوں، اس کے لئے کم از کم اپنے آپ سے ہی ہم کلام ہو کر بیان کریں
تاکہ بات اچھی طرح سمجھ آ جائے اور یادداشت میں بھی محفوظ ہو جائے ۔
3۔بلند آواز سے یاد کیجئے: کتاب کا
مطالعہ کرنے والے کے لئے مُناسب ہے کہ اتنی بلند آواز سے پڑھے کہ خود سُن لے، امیر
اہلِ سنت دامت برکاتھم العالیہ
فرماتے ہیں:"صرف آنکھوں سے نہیں، زبان سے بھی پڑھئے کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ
آسان ہے" لہذا دِل ہی دِل میں پڑھنے کے بجائے آواز سے پڑھیں، لیکن یہ خیال رہے ! بلند آواز سے پڑھنے میں کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔
4۔تھوڑا مطالعہ مگر اِستقامت کے ساتھ:بعض
اوقات یاد کرنے والا مواد زیادہ ہوتا ہے،
ایسی صورت میں سب کا سب یاد کر لینا بھی مُمکن نہیں ہوتا، اس طرح کبھی کسی کتاب کا
مکمل مطالعہ کر کے اس کے مضامین ذہن میں محفوظ رکھنا بھی مطلوب ہوتا ہے تو اس طرح
کے مواد کو یادداشت میں برقرار رکھنے کے لئے روزانہ تھوڑا تھوڑا مطالعہ کرنا، پھر
اِستقامت کے ساتھ اسے جاری رکھنایادداشت کے لئے اہم ترین ہے۔
5۔یادداشت کو تحریری صورت دیجئے:دورانِ
مطالعہ بارہا ایسی باتیں آتی ہیں، جو
ہمارے لئے بالکل نئی ہوتی ہیں اور ہم انہیں
اچھی طرح اپنی یادداشت کا حصّہ بنانا چاہتے ہیں، اس کے لئے الگ رجسٹر بنانا اور مختصر الفاظ لکھ
کر صفحہ نمبر کے ساتھ اس بات کو محفوظ کر لینا بھی فائدہ مند ہے۔
6۔یاد کرنے کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کیجئے:یاد کرنے کے لئے ایسی جگہ
کا انتخاب کیجئے، جہاں شوروغل اور آمدورفت کی جگہ نہ ہو، بلکہ پُرسکون مقام ہو اور
سردی و گرمی کے اعتبار سے بھی مُعتدل ہو،
اگر ان چیزوں کا خیال نہ رکھا جائے تو اگرچہ مطالعہ کرنا اور اس کے نکات کو محفوظ رکھنا مُمکن
ہے، مگر ایسا مطالعہ زندگی بھر یادداشت میں
محفوظ نہیں رہ سکتا۔
(کتاب ، حافظہ کیسے مضبوط ہو؟)
مطالعہ
درست طریقے سے کرنے کے لئے مطالعہ کرتے
وقت چند باتوں کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے:
مطالعہ کرنے کا
آغاز:جب مطالعہ کرے تو بسم اللہ
پڑھ لے، کہ حدیثِ مبارکہ میں اِرشاد ہوا "جو
کام بسم اللہ سے شُروع نہیں کیا جاتا، وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔"
(
کنز العمال، کتاب الاذکار، ج 1، ص277 ، الحدیث2487)
سازگار ماحول :مطالعہ کے لئے سازگار
ماحول کا ہونا بہت مُفید ہے،( اگر سازگار ماحول میسّر نہ ہو تو خود کو اسی ناسازگار ماحول میں
مطالعے کا عادی بنائیں)کتاب ہاتھ میں لے
کر بالکل یکسو ہو کر کسی ایسی جگہ پر بیٹھا جائے، جہاں شور شرابا نہ ہو، نہ سردی اور نہ بہت گرمی۔
٭ذہن
کو ادھر ادھر نہ بھٹکنے دیں اور نہ ہی
نگاہ کو آزاد چھوڑ یں، بلکہ اِنہماک کے ساتھ مطالعہ کریں۔
٭
مطالعہ کرنے سے پہلے جس کتاب کا مطالعہ شروع کریں، اس کی فہرست کو پڑھئے تا کہ دلچسپی بڑھ جائے اور
مطالعہ مکمل کرلیں تو ایک بار پھر فہرست کو پڑھئے، تا کہ مطالعہ کی ہوئی چیز دوبارہ ذہن میں آ جائے۔
٭
کتاب کے ساتھ ایک عدد کاپی اور ایک قلم بھی موجود ہو، جو اَہم نکات ہوں وہ کاپی میں نوٹ کرتے جائیں، تا کہ بوقتِ ضرورت کام آ سکیں۔
وقت نکالئے:اگر ہم اپنے پورے دن کے معاملات
کو کنٹرول کر لیں تو مطالعہ کے لئے بآسانی
وقت نکال سکتے ہیں، مثلاً نمازِ فجر کے بعد سے جامعہ کا وقت شروع ہونے تک، دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد، آرام سے پہلے، نمازِ مغرب کے بعد سے نمازِ عشاء تک۔
مطالعہ کرنے میں سُستی:اگر
نفس مطالعہ کرنے میں سُستی دلائے تو نفس
پر جبر کر یں، اِمام محمد علیہ الرحمۃ ہمیشہ شب بیداری فرمایا کرتے تھے
اور آپ کے پاس مختلف قسم کی کتابیں رکھی
ہوتی تھیں، جب ایک فن سے اُکتا جاتے تو
دوسرے فن کے مطالعہ میں لگ جاتے تھے، یہ بھی منقول ہے کہ آپ اپنے پاس پانی رکھا کرتے
تھے کہ جب نیند کا غلبہ ہونے لگتا تو پانی
کے چھینٹے دے کر نیند کو دُور فرماتے اور فرمایا کرتے تھے" کہ نیند گرمی سے ہے لہذا ٹھنڈے پانی سے دور کرو۔"
(
تعلیم المتعلم طریق المتعلم، ص87)
اگر
مکمل جبر کرکے مطالعہ کیا جائے تو چند دن سے زیادہ کامیابی مقدر نہیں ہوگی کیونکہ جبر کی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی، اس لیے جبر کے ساتھ ترغیب بھی دلائیں۔
ترغیبِ اوّل : علمِ دین کے فضائل، اِس کے دنیوی و اُخروی فوائد، اپنے نفس کو سمجھا کر قائل کرنے کی کوشش کریں۔
ترغیبِ ثانی: اپنے سے مافوق سے آگے نکلنے کی
تڑپ پیدا کرنی ہے۔
مطالعہ کو یاد رکھنا:
٭
اپنی کتاب کو ذہنی طور پر مختلف حصّوں( باب یا صفحات)میں تقسیم کر دیں۔
٭
کسی بھی مضمون کی تحریر کو پڑھتے وقت اس میں اپنی ذات کو شامل کریں۔
٭
دوہرانے ، پڑھانے، سنانے اور لکھنے سے زیادہ
عرصہ تحریر ہمارے ذہن میں محفوظ رہتی ہے۔
حاصل مطالعہ:مطالعہ کرنے کے بعد خود سے سوال
کریں کہ آپ نے کیا سیکھا، کیا حاصل کیا، اگر اس تحریر کو کسی کو بتانا ہو تو کیا بتاؤں
گا؟ حاصلِ مطالعہ کو نوٹ بُک پر لکھنے کی عادت بنائیں، ورنہ کم از کم مطالعہ کے بعد حاصل ِمطالعہ ہلکی
آواز میں دہرائیں۔
لغت
میں مطالعہ کا معنی یہ لکھا ہے کہ کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا، مطالعہ کے اور بھی معانی ہیں جیسے غور، توجّہ، دھیان وغیرہ(فیروز اللغات)
جب کہ اِصطلاح میں بذریعہ تحریر مصنف یا مؤلف کی
مراد سمجھنا "مطالعہ کہلاتا ہے۔"
(ابجد العلوم،ج1، ص218)
مطالعہ
انسانی زندگی میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، چھوٹے ہوں یا بڑے سب مطالعہ کے شوقین ہوتے ہیں، خاص کر طالب علم کا اِس سے تعلق زیادہ رہتا ہے
اور جو مطالعہ کیا جائے اسے یاد رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے، لہٰذا مطالعہ صحیح طریقے اور مقاصد سے کیا جائے تو اُمید ہے کہ وہ یاد
رہے گا، چنانچہ مطالعہ سے قبل تو یہ جاننا
ضروری ہوتا ہے کہ کس مقصد کے لئے مطالعہ کر رہے ہیں، سرِفہرست علمِ دین حاصل کرنے کے لئے مطالعہ کرنا
چاہئے، آئیے اِس کا دُرست طریقہ اور چند
احتیاطیں جانتے ہیں:
1۔مطالعہ
کرتے وقت پُر اعتماد اور اَلرٹ رہئے، کوئی
ذہنی دباؤ ہو اِس سے مطالعہ کی رَفتار اور سمجھ بَٹ جاتی ہے۔
2۔مطالعہ
کے لئے وقت اور مضمون پہلے سے طے کر لیں، اس سے جسم اور دماغ دونوں کو سہولت رہتی ہے، نیز ایک وقت میں دو گھنٹے سے زائد مطالعہ نہ کیا
جائے، دو گھنٹے بعد دماغ کی رفتار بھی سُست
پڑنا شروع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے
مطالعہ کا کما حقہٗ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
3۔مطالعہ
کے لئے آرام دہ ماحول کا ہونا بہت مفید ہے،
لہذا کتاب ہاتھ میں لے کر بالکل یکسو ہو
کر کسی ایسی جگہ پر بیٹھا جائے، جہاں
شورشرابا نہ ہو، کتاب کے ساتھ آپ کے داہنی(سیدھی)
جانب ایک عدد کاپی اور ایک قلم بھی موجود ہو، جو اہم نکات(پوائنٹ) ہوں وہ کاپی میں نوٹ کرتے
جائیں، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آسکیں۔
4۔کسی
بھی مضمون، تحریر کو پڑھتے وقت اس میں اپنی
ذات کو شامل کر لیں، ماہرینِ نفسیات کے
مطابق جس کام میں ہماری اپنی ذات شامل ہوتی ہے، وہ ہمیں زیادہ دیر تک یاد رہتی ہے۔
( حوالہ، مولانا محمد نوید عطاری، دارالافتاء اہلسنت)
5۔بھوک
یا زیادہ کھانے کے بعد دردِ سر، تھکاوٹ اور نیند کی حالت میں مطالعہ نہ کریں، کیونکہ اس میں پڑھتے ہوئے لفظ یاد نہیں رہتے، خاص کر شرعی مسائل کا ایسے وقت میں مطالعہ نہ کیا
جائے، مطالعہ جذبہ و شوق کے ساتھ کیا جائے،
مجبوری میں نہ کیا جائے۔
6۔کسی
بھی ایسے انداز پر جس سے آنکھوں پر زور پڑے، مثلاً بہت مدہم یا زیادہ تیز روشنی میں یا چلتے چلتے یا چلتی گاڑی
میں یا لیٹے لیٹے یا کتاب پر جھک کر
مطالعہ کرنا آنکھوں کے لئے مُضِر یعنی (نقصان دہ) ہے، بلکہ کتاب پر خوب جھک کر مطالعہ کرنے یا لکھنے سے آنکھوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ کمر
اور پھیپھڑے کی بیماریاں بھی ہوتی ہے۔
7۔صرف
آنکھوں سے نہیں، زبان سے بھی پڑھئے کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے، مشکل الفاظ پر بھی نشانات لگا لیجئے اور کسی
جاننے والے سے دریافت کر لیجئے، اسی طرح کچھ
دیر مطالعہ کرکے دُرود شریف پڑھنا شروع کر
دیجیئے اور جب آنکھوں وغیرہ کو کچھ آرام
مل جائے تو پھر مطالعہ شروع کر دیجیئے، کسی
بھی مضمون پر کتاب پڑھنے سے پہلے فہرست کا مکمل مطالعہ کریں۔
8۔مطالعہ
کرنے سے قبل یہ دعا کریں کہ یا اللہ
میں جو علم حاصل کروں، اسے سمجھ کر ہمیشہ یاد
رکھوں اور دوسروں تک پہنچا ؤں، نیز یہ دعا
پڑھیں۔(علم و حکمت کے 125 مدنی پھول، ص 72)
مطالعہ سے قبل دعا:
اَللّٰهُمَّ افۡتَحۡ عَلَيۡنَا حِكۡمَتَكَ وَانۡشُرۡ عَلَيۡنَا
رَحۡمَتَكَ يَـا ذَا الۡجَلَالِ وَالۡاِكۡرَام۔
(علم و حکمت کے 125 مدنی پھول)
امیرِاہلسنت اور حاصلِ مطالعہ:
قبلہ
امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری مد ظلہ العالی کی عادتِ مبارکہ ہے کہ وہ دورانِ مطالعہ اہم
باتوں اور مختلفُ الاَنواع موضوعات سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات و تفسیرِ آیات،
احادیثِ کریمہ و شروحِ احادیث وغیرہ الگ ڈائری میں لکھتے جاتے ہیں، نہ صرف خود بلکہ اپنے مریدوں و مُحِبّین کو بھی یہی
درس دیتے ہیں۔( مطالعہ کیا، کیوں اور کیسے، ص 74)
بعض مفید کتب کے نام:
اِسلامی
احکام اوراِسلام کی بنیادی اور ضروری باتیں جاننے کے لئے ان مُستند کُتب کا مطالعہ
بے حد مفید ہے، ترجمہ قرآن کنز الایمان مع تفسیر خزائن العرفان، سیرت ِمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، عجائب القرآن، کفریہ کلمات کے بارے میں سوال
جواب، فیضانِ سنت، غیبت کی تباہ کاریاں، نماز کے احکام وغیرہ۔
مطالعہ کرنے کا درست طریقہ:
مطالعہ
کے لغوی معنی غور،توجہ ،دھیان اور کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا
ہے ۔ (اردو لغت، 18/215) جبکہ اصطلاحی معنی کے اعتبار سے تحریر کے ذریعے مصنف یا مؤلف کی
مراد کو سمجھنے کا نام مطالعہ کہلاتا ہے۔(ابجد العلوم، 1/218)
یادکھئے!حصولِ
علم کے مختلف ذرائع ہیں مثلاً(1) کتاب (2) صاحب علم کی صحبت (3) کسی ادارے سے درس
کا حصول (4) علمی مجالس میں شرکت(5)انٹر نیٹ
بھی حصول علم کے ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہے ۔
حصولِ
علم کے ان ذریعوں میں سے کتب بینی انتہائی
مفید اور بہترین طریقہ ہے کہ انسان کی مکمل توجہ کتاب کے ہر ہر لفظ کی مراد سمجھنے
پر ہوتی ہے ۔ کسی بھی قوم کے ہر فرد کیلئے مطالعہ انتہائی ضروری ہے کہ زندگی
میں مختلف مواقع پر ہماری پڑھی ہوئی بہت سی باتیں بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں ۔مطالعے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں بلکہ ہر عمر
کے افراد کو اپنے معاملات بحسن و خوبی انجام دینے کیلئے مفید معلومات حاصل کرتے رہنا چاہیے ۔لہٰذا جب بچے پڑھنے کے قابل ہوجائیں تو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق نصابی کتابوں کے علاوہ دیگر کتب پڑھنے کی بھی عادت ڈالی جائے
تاکہ بڑے ہونے تک یہ عادت قائم رہے اور ہمارے بچے اپنی علمی شخصیت اور صلاحیت کی بدولت ملک و ملت کی بہتری
کیلئے اہم کردار ادا کرسکیں ۔ آئیے!مطالعہ
کرنے کا درست طریقہ کار ملاحظہ کیجئے۔
(1)موضوع کا انتخاب: مطالعے
کا ذوق رکھنے والے کیلئے موضوع کے انتخاب
کی بڑی اہمیت ہے ۔اس کیلئے ہر ایک کو اپنے معمولات کو سامنے رکھتے ہوئے انتخاب کرنا چاہیے اگر کوئی بزنس مین ہے تو
تجارت اور خرید و فروخت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے ،کوئی شادی شدہ
ہے تو اس سے متعلق شرعی مسائل اور رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھانے سے متعلق مطالعہ
کرے ۔ صاحبِ اولاد کو بچوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کے حوالے سے مطالعہ
کرنا چاہیے علی ہذا القیاس ہر ایک اگر
اپنے عہدہ و منصب سے متعلق معلومات حاصل کرے گا تو اپنے معاملات بہتر طریقے سے چلانے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔اس کیلئے سیرتِ و
اسلامی تاریخ اور تصوف واخلاقیات پر مشتمل
کتب ورسائل کا مطالعہ کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ ہم اپنی عملی اور معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرسکیں
۔ یاد رہے ایسا لٹریچر پڑھنے سے مکمل اجتناب کیجئے جو بے فائدہ ہونے
کے ساتھ ساتھ ایمانیات اور اخلاقیات سے عاری ہو کیونکہ یہ اخلاق وکردار اور ایمان کیلئے زہر قاتل کے مماثل ہے ۔
(2)مصنف کا انتخاب: مطالعہ کرنے سے پہلے مصنف کا انتخاب
بھی از حد ضروری ہے کیونکہ ہر مصنف میں تحریر و تصنیف کی صلاحیت اور اپنا مافی
الضمیر عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی قابلیت ہویہ ضروری نہیں ،لہٰذا ایسے قابلِ
اعتماد محرر کو پڑھئے جو مخالفِ اسلام نہ
ہو اور اس کی تحریر بھی عام فہم ہو نے کے
ساتھ ساتھ معلومات کا ذخیرہ سمیٹے ہو ۔اس کیلئے اپنے اساتذہ یا اہلِ علم
سے مشاورت کرنا مفید ہے ۔
(3)وقت کا انتخاب:مطالعہ کرنے کیلئے مناسب وقت کا
انتخاب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے
۔لہٰذا ایسا وقت اختیار کیجئے جس میں ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ یا کوئی اور مصروفیت نہ ہو ۔ اپنی روز مرہ مصروفیات میں سے استقامت کے ساتھ روزانہ چاہے آدھا گھنٹہ ہی
مطالعے کیلئے منتخب کریں اور غور وفکر کے ساتھ چند صفحات ہی پڑھے جائیں تو یہ زیادہ مفید ہے ۔ اگر فرصت ہوتو صبح کا وقت
مُطالَعہ کرنا زیادہ فائدے مند ہے کیونکہ اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتااور ذہن بھی زیادہ فریش ہو تاہے۔
(4)جگہ کا انتخاب:مطالعے کیلئے صحیح جگہ کا تعین بھی بہت ضروری عمل ہے ۔لہٰذا ایسی جگہ جہاں کسی کی دخل اندازی یا کسی بھی طرح کی دشواری ہو تو مطالعے کیلئے ایسے مقام سے اجتناب کیجئیے
کیونکہ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ پڑھی ہوئی باتیں ذہن میں راسخ نہیں ہوسکیں گی یا پھر آپ پڑھیں گے کچھ اور سمجھ اس کا الٹ ہی آئے گالہذا یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرنے کیلئے کسی بھی قسم
کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ۔ مطالعہ کرنے
کی جگہ روشنی کا بھی خاص انتظام کیجئے کہ نہ تو اتنی کم روشنی ہو جو ذہن اور آنکھوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہواور نہ ہی اتنی تیز روشنی ہو جو پڑھنے میں مخل ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کیلئے باعثِ ضرر
ہو بلکہ جتنی ضرورت ہو اسی اعتبار سے روشنی کا اہتمام کیا جائے۔
مطالعے سے متعلق مزید مفید
باتیں:(1)مطالعہ کرتے وقت ایسا انداز اختیار نہ کریں جس سے آنکھوں پر
زور پڑے مثلاً روشنی بہت مدہم یازیادہ تیز نہ ہو۔اسی طرح چلتے چلتے ،چلتی گاڑی میں یا لیٹ کر یا پھر کتاب پر جھک
کر مطالعہ کرنا آنکھوں کےلئےمضر ہے۔(2) دورانِ مطالعہ کچھ دیر کیلئے آنکھوں اور
گردن کی ورزش کیجئے کہ مسلسل ایک ہی جگہ دیکھنے سے آنکھیں تھک جاتی ہیں ۔ (3) اگر کوئی بات غور وفکر کےبعد بھی سمجھ نہ آئے تو اہل علم سےبلا جھجک پوچھ لیجئے۔ (4)
مطالعہ کرتے وقت بہت سی نئی باتیں سامنے
آتی ہیں جنہیں بطورِ یادداشت لکھ کر محفوظ کرلیجئے تاکہ ضرورت کے وقت تلاش کرنے میں وقت ضائع نہ ہو۔(5) مطالعے کے ذریعے
جو معلومات حاصل ہو اسے دوسروں سے بھی شئیر کرتے رہیں اس سے آپ کا علم بھی محفوظ
ہوجائے گا اور دوسروں کو بھی نفع پہنچے گا ۔
مطالعے کے فوائد:(1)مطالعہ کرنے سے علم حاصل ہوتا
ہےجو دینی اور دنیوی معاملات کیلئے بے حد ضروری ہے۔(2) مطالعہ سے انسان میں شعور پیدا
ہوتا ہے اور باشعور انسان معاشرے میں
قابلِ عزت سمجھا جاتا ہے ۔(3) مطالعہ کرنےوالے کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے جس
سے صحیح موقع پر صحیح بات کرنے کا سلیقہ
آتا ہے ۔(4) مطالعہ کرنے والا شخص دینی
اور دنیوی لحاظ سے ترقی حاصل کرتا ہے۔
(5)مطالعہ کے ذریعے انسان اپنے بہت سے مسائل کا حل تلاش کر لیتا ہے۔
ہمیں
بھی چاہیے کہ مطالعے کی عادت بنائیں اور جو علم حاصل ہو اس پر عمل کی کوشش بھی کریں
۔
اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمَۃٌ"یعنی
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(سنن ابنِ ماجہ المقدمہ، باب فضل العلماء والحدیث۔۔الخ، الحدیث 224، ج1، ص
146)
اِس
سے مراد کون سا علم ہے؟ جیسی انسان کی حالت، ویسا اس
پر علم حاصل کرنا فرض ہے مثلاً انسان جیسے ہی بالغ ہوا، اس پر نماز، روزہ وغیرہ کا علم حاصل کرنا فرض ہے، اگر وہ کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو اس پیشے کے مُتعلق علم حاصل کرنا اس پر فرض ہے، اب سوال یہ ہے کہ علم کیسے حاصل کیا جائے؟ آج کے
زمانے میں علم حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں، ان میں سے ایک آسان و عام ذر یعہ کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے، لیکن اس کے بھی کچھ طور طریقے ہیں، کتابوں کے مطالعہ کے حوالے سے چند فائدہ مند مدنی
پھول :
1۔
جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے، اس کا مطالعہ
کریں،مثلاً آپ نے یہ ٹھان لی کہ میں نے بہارِ شریعت مُکمل پڑھنی ہے، اب اگر رَمَضان کا مہینہ آرہا ہے یا آچکا ہے تو آپ سب
سے پہلے روزوں کا بیان پڑھیں، اگر کسی نے
روزہ کے حوالے سے پوچھ لیا تو آپ بتا سکتے ہیں اور وہ مسئلہ جو آپ دوسروں کو بتائیں گے وہ آپ کو یاد
ہو جائے گا۔
2۔
اگر آپ نے نیا نیا مطالعہ کرنا شروع کیا ہے، تو آپ مکمل توجّہ کے ساتھ شُروع سے لے کر آخر تک
ساری کتاب پڑھیں۔
3۔ایسے
وقت میں مطالعہ کریں، جب آپ کا دماغ بالکل تَروتازہ ہو اور آپ پریشان نہ
ہوں، اگر آپ کو کوئی کام کرنا ہو مثلاً آپ کو بہت بھوک لگی ہے، تو کھانا کھا کر پڑھیں، جلدی جلدی مت پڑھئے کہ یہ صفحہ پورا کر لوں پھر
کھاؤں گا، اِس طرح جو آپ پڑھیں گے آپ صحیح
سے اُسے پڑھ اور سمجھ نہیں سکیں گے۔
4۔اِتنا
زیادہ نہ پڑھیں کہ دل اُکتا جائے، اِتنا پڑھیں جو آپ کے دل پر آسان ہواور جُھک کر نہ پڑھیں کہ نظر کمزور ہوتی ہے۔
5۔
جب پڑھ لیں تو کتاب بند کرکے سوچیں کہ آپ
کے عِلم میں کتنا اِضافہ ہوا ہے اور کیا اِضافہ ہوا ہے؟
6۔کتاب
شروع کریں تو سب سے پہلے فہرست دیکھیں، اگر کوئی عُنوان ایسا ہو جس کے بارے میں آپ
نے کبھی نہیں پڑھا تو سب سے پہلے اس کو پڑھیں۔
7۔جب
مطالعہ کریں تو قلم اور کاپی پاس رکھیں، جس چیز کے بارے میں کوئی گمان ہو کہ یہ بُھول
جائے گی یا یہ اَہم ہے، اس کو لکھ لیں اور
یہ سوچ کر مطالعہ کریں کہ آپ نے بیانات تیار کرنے ہیں۔
8۔جب
آپ کو یہ لگے کہ فلاں کتاب سے بُھول رہا ہے اور آپ دوبارہ پڑھنا چاہتے ہیں، تو ساری کتاب دوبارہ نہ پڑھیں جو آپ نے اَہم نِکات
لکھے تھے اس کو دُہرا لیں۔
9۔جو
آپ نے پڑھا ہے وہ دوسروں کو بتائیں اور فضول گَپ شَپ کرنے کے بجائے اِس کے اوپر تذکرہ
کریں۔
10۔اگر
آپ مطالعہ نہیں کرتے یا دل نہیں کرتا، تو آپ چھوٹے چھوٹے رسائل مثلاً جھوٹا چور، دُودھ پیتا مدنی مُنا وغیرہ کا مطالعہ کرنا شروع
کریں، جوش میں آکر ایک ہی دفعہ میں دس رسائل پڑھ لیں گے تو اگلے دس مہینے کسی کتاب
کے قریب نہیں جائیں گے، دو تین سَطروں(lines) سے مطالعہ کا آغاز کریں، پھر ایک ایک سَطر بڑھاتے چلے جائیں، کُچھ عرصے بعد آپ اس کے نتائج خود ہی دیکھ لیں
گے ۔
مطالعہ
حصولِ علم کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن آج کل
لوگوں کو مطالعہ کرنے کا درست طریقہ معلوم نہیں، کیونکہ لوگ جلدبازی سے مطالعہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سی باتیں مکمل سمجھ نہیں آتیں
اور مقصدِ مطالعہ فوت ہو جاتا ہے، اس لئے ہمیں درج ذیل مدنی پھولوں کے مطابق عمل کرنے
کی عادت بنا لینی چاہئے۔
٭اللہ عزوجل کی رضا اور حصولِ ثواب کی نیت سے
مطالعہ کیجئے۔
٭
مطالعہ شروع کرنے سے قبل حمد و صلوٰۃ پڑھنے کی عادت بنا ئیے۔
٭فرمانِ
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"
جس نیک کام کی ابتداء پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور مجھ پر دُرود نہ
پڑھا گیا، اس میں برکت نہیں ہوتی۔"
(کنز العمال، ج1، ص279 ، حدیث2507)
ورنہ
کم از کم بسم اللہ شریف تو پڑھ لیجئے کہ ہر صاحبِ شان کام کرنے
سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔
٭
قبلہ رُو بیٹھئے کہ اس کی بہت برکتیں ہیں،
بیٹھتے وقت کعبۃ اللہ شریف کی سَمت مُنہ رکھنا سنت ہے۔
٭صبح
کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے، کیونکہ
عموماً اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے۔
٭
شوروغل سے دُور پُر سکون جگہ پر بیٹھ کر مطالعہ کیجئے۔
٭
اگر جلدبازی یا ٹینشن کی حالت میں پڑھیں گے مثلاً کوئی آپ کو پُکار رہا ہے اور آپ
پڑھے جا رہے ہیں یا اِستنجاء کی حاجت ہے
اور آپ مسلسل مطالعہ کئے جا رہے ہیں، ایسے وقت میں آپ کا ذہن کام نہیں کرے گا اور غلط
فہمی کا اِمکان بڑھ جائے گا۔
٭
کسی بھی ایسے انداز پر جس سے آنکھوں پر
زور پڑے مثلاً بہت مَدہم یا زیادہ تیز
روشنی میں یا چلتے چلتے یا چلتی گاڑی میں یا لیٹے لیٹے یا کتاب پر جھک کر مطالعہ
کرنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے، بلکہ کتاب پر خُوب جھک کر مطالعہ کرنے یا لکھنے
سے آنکھوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ کمر اور
پھیپھڑوں کی بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔
٭
کوشش کیجئے کہ روشنی اوپر کی جانب سے آ رہی ہو، پچھلی طرف سے آنے میں بھی حرج نہیں، جبکہ تحریر پر سایہ نہ پڑھتا ہو، مگر سامنے سے آنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
٭
مطالعہ کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت ترو
تازہ ہونی چاہئے۔
٭
وقتِ مطالعہ ضرورتاً قلم ہاتھ میں رکھنا چاہئے کہ مشکل الفاظ پر نشانات لگا لیجئے اور کسی جاننے والے سے دریافت
کر لیجئے۔
٭
صرف آنکھوں سے نہیں، زبان سے بھی پڑھئے کہ
اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے۔
٭
وقفے وقفے سے آنکھوں اور گردن کی ورزش کر لیجئے، کیونکہ کافی دیر تک مسلسل ایک ہی جگہ دیکھتے
رہنے سے آنکھیں تھک جاتی ہیں اور بعض اوقات تو گردن بھی دُکھ جاتی ہے، اِس کا طریقہ یہ ہے کہ آنکھوں کو دائیں بائیں اُوپر
نیچے گھمائیے، اِسی طرح گردن کو بھی آہستہ
آہستہ حرکت دیجئے۔
٭
اِسی طرح کچھ دیر مطالعہ کرکے دُرود شریف پڑھنا شروع کر دیجیئے اور جب آنکھوں وغیرہ
کو کچھ آرام مل جائے تو پھر مطالعہ شروع کر دیجئے۔
٭
ایک بار کے مطالعے سے سارا مضمون یاد رہ جانا بہت دُشوار ہے، کہ فی زمانہ ہاضمے اور حافظے بھی کمزور، لہذا دینی کُتب و رسائل کا بار بار مطالعہ کیجئے۔
٭
مقولہ ہے :" سبق ایک حرف اور تکرار ایک ہزار بار ہونی چاہئے۔"
٭
جو بھلائی کی باتیں پڑھی ہیں، ثواب کی نیّت
سے دوسروں کو بتاتے رہئے، اس طرح ان شاءاللہ عزوجل آپ کو یاد ہو جائیں گی۔(
علم و حکمت کے125 مدنی پھول، ص72)
اے مسلمانوں
!۔۔۔
ہر مسلمان کے
لئے علم دین حاصل کرنا بےحد ضروری ہے۔ علم دین حاصل کرنے کی اہمیت و فضیلت قرآن کریم
، فرقان حمید میں موجود ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ
الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ
تمھارے ایمان والوں
اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند
فرمائے گا۔ (پارہ 28 سورہ مجادلہ آیت :11)
اسی طرح علم
کی اہمیت پر ہمارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے
کئی بار ترغیب عطا فرمائی ہے : "اے
لوگوں علم سیکھنے سے آتا ہے اور دین کی سمجھ غور و فکر سے حاصل ہوتی ہے" (معجم
کبیر ، 395/19)
علم دین حاصل
کرنے کے بے شمار ذرائع ہیں مثال کے طور پر
علماء کی صحبت ، مدنی مذاکرہ ، جامعۃ المدینہ،
اسی طرح اچھی اور معیاری کُتب کا مطالعہ کرنا بھی حصول علم کا ذریعہ ہے۔مطالعہ
کرنے کے بے شمار فوائد ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں :
ایمان کی
پختگی ، منفی اور بے فائدہ مصروفیات سے بچنا ،فضول گفتگو سے بچنا، علم دین کا خزینہ
ہاتھ آنا ، غم و مصیبت بھلانے کا ذریعہ ہے ۔
مطالعہ کرنے
کے فوائد اس وقت مل سکتے ہیں جب مطالعہ کرنے کا طریقہ درست ہو ۔
لہذا مطالعہ
کرنے کے حوالے سے چند مدنی پھول آپ کی خدمت میں عرض ہیں۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّکی
رضا کے لئے مطالعہ کرنا
مطالعہ کرنے
سے پہلے حمد و صلوٰۃ پڑھنا ۔ ( کیونکہ جو کام حمد و صلوٰۃ کے بغیر شروع کیا جائے
اس میں برکت نہیں ہوتی)
باوضو اور
قبلہ رو ہوکر مطالعہ کرنا
''''باادب
بانصیب"" مقولے پر عمل کرکے اپنی کتابوں اور قلموں کا ادب کرنا ۔ ان شاء
اللہ تعالیٰ
ادب کی برکت سے علم میں اضافہ ہوگا ۔
تمام مصروفیات
سے فارغ ہوکر مطالعہ کرنا۔(مطالعہ کرنے کے لئے صبح کا وقت مفید ہے )
پرسکون جگہ
پر مطالعہ کرنا
ذہن مطالعہ
کرنے کے وقت تروتازہ ہو
جھک کر
مطالعہ کرنا نقصان دہ ہے ۔
ایسی جگہ پر مطالعہ کرنا جہان آنکھوں پر روشنی کی
وجہ سے زور نہ پڑھے ۔
قلم ساتھ رکھیں
تاکہ اہم مدنی پھولوں کو نوٹ کرسکیں ۔
زبان سے پڑھیں تاکہ مسائل یاد ہوجائیں ۔
بار بار تکرار کریں
آنکھوں اور گردن کی ورزش کریں ۔
ثواب کی نیت
سے دوسروں کو مسائل بتائیں تاکہ یاد ہوجائیں کیونکہ علم بانٹنے سے اس میں برکت ہوتی
ہے ۔ (علم و حکمت کے 125 مدنی پھول)
اللہ عزوجل ہمیں
علم دین حاصل کرنے کی اور دوسروں تک پہنچانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم