ہر
چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اگر اسے اس کے
طریقے کے مطابق کیا جائے تو وہ اپنے دُرست انداز کے مطابق ہوتا ہے، ایسے ہی مطالعہ کرنے کا ایک اپنا انداز ہے، اگر مطالعہ کو اس کے دُرست طریقے سے ہٹ کر کیا جائے تو مطالعے کے فوائد کماحقہٗ حاصل نہیں ہو پائیں گے، آئیے ہم مطالعہ دُرست انداز سے کرنے کے متعلق چندنکات
ذکر کرتے ہیں:
(1)
مطالعے سے پہلے اپنی تمام طبعی حاجات سے فارغ ہو کر بیٹھیں۔
(2)
مطالعہ کا وقت مُقرّر کیا جائے، جس میں
دماغ تروتازہ ہو اور یکسوئی حاصل ہو سکے۔
(3)
کتاب وہ منتخب کی جائے، جو بامقصد اور دلچسپ ہو۔
(4)
مطالعے سے پہلے کتاب کی فہرست کو پڑھا جائے، پھر مطالعہ کیا جائے۔
(5)اگر
فقہ کا مطالعہ کر رہے ہوں اور دورانِ
مطالعہ اُکتاہٹ محسوس ہو تو کسی اور دلچسپ کتاب پر آ جائیں اور
کُچھ دیر اُس کا مطالعہ کریں، پھر دوبارہ
فقہ پر آ جائیں۔
(6)
دورانِ مطالعہ اگر قلم اور ڈائری ساتھ رکھ
لیں اور خاص اور اَہم نکات جو آپ کو لگیں، ان کو نوٹ کرتے جائیں پھر اس کو دُہراتے رہیں، ان شاءاللہ
علم میں ترقی ہوگی۔
(7)
جب کسی کتاب کا مطالعہ کر چکیں تو دوبارہ فہرست کو ایک نظر دیکھ لیں، اس سے یہ اندازہ ہوگا کہ کیا
پڑھا اور کیا یاد رکھا گیا۔
(8)
اگر مطالعے میں دل نہ لگے اور اِستقامت حاصل
نہ ہو پائے تو بزرگانِ دین رحمھم اللہ
المبین کے مطالعے کے واقعات کو پڑھیں اور مطالعہ میں جبراً دل لگایا جائے اور اس بارے میں ربّ تعالیٰ سے دعا کرے کہ حدیث شریف میں ہے:"الدُّعَاءُ سَلَاحُ الْمُؤمِن۔
ترجمہ: دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔" ان شاءاللہ مطالعہ کرنے میں دل لگ جائے گا۔
اللہ پاک ہمیں مطالعہ کرنے، اسے یاد رکھنے، اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین ثم
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
مطالعہ کیا ہے؟
مطالعہ
ایک خوبصورت پُھول کی مانند ہے، اِس میں
خوشبو بھی ہے اور خار دار شاخیں بھی ہیں، ایک شہسوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ضروری ہے کہ
جتنا زندگی کی بقاء کے لئے دانہ اور پانی
کی ضرورت ہے، علم اِنسان کا اِمتیاز ہی نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ مطالعہ ہے۔
مطالعہ کیسی کتابوں کا ہونا چاہئے؟
مطالعہ
ایسی کتابوں کا ہونا چاہئے، جو نگاہوں کو بلند اور جاں کو پُرسوز بنا دے۔
مطالعہ کرنے کا درست طریقہ کار:
مطالعہ
کے لئے سازگار ماحول کا ہونا بہت مفید ہے، لہذا کتاب ہاتھ میں لے کر بالکل یکسو ہو کر کسی
ایسی جگہ پر بیٹھنا، جہاں شور شرابا نہ ہو، نہ
بہت سردی نہ ہی بہت گرمی ہو۔
مطالعہ
کرتے وقت ذہنی تناؤ اور حد سے زیادہ مسرّت
کا شکار نہ ہو، کتاب کے ساتھ آپ کے داہنی
جانب ایک عدد کاپی اور قلم بھی موجود ہو، جو اَہم نکات ہوں وہ کاپی میں نوٹ کرتے جائیں
تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئیں۔
مطا
لعہ کیلئے آئیڈیل کنڈیشنز ہمیشہ میسّر ہو،
یہ ضروری نہیں بلکہ یوں کیا جائے تو بے جا
نہیں ہو گا کہ ہماری
زندگی میں اکثر غیر سازگار ماحول ہی میسر
ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم اپنا کثیر قیمتی وقت سازگار ماحول پانے کی کوشش یا انتظار
میں کھو دیں، لہذا یہ بات طے ہے کہ ہمیں اکثر سازگار ماحول میسر نہیں ہوگا، تو ہمیں اپنے آپ کو اِسی ناسازگار ماحول میں
مطالعہ کا عادی بنانا ہے، اسی میں اِنہماک پیدا کرنا ہے، یہ یاد رکھئے! بہترین کارکردگی ہمیشہ وہی ہوتی ہے، جو ناسازگار ماحول میں سرانجام دی جائے۔
کسی
بھی مضمون، تحریر کو پڑھتے وقت اس میں اپنی
ذات کو شامل کر لیں، ماہرینِ نفسیات کے
مطابق "جس کام میں ہماری اپنی ذات
شامل ہوتی ہے، وہ ہمیں زیادہ دیر تک یاد
رہتی ہے۔" ( مطالعہ کیسے کیا جائے؟)
فرمانِ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ:
چلتے پھرتے وقت مطالعے سے اِجتناب کیا جائے،کہ اس سے حافظہ کمزور ہوتا
ہے۔
اوراق
پلٹنے، صفحات گننے اور اِس میں لکھی ہوئی
سیاہ لکیروں پر نظر ڈال کر گزر جانے کا
نام مطالعہ نہیں، امیرِ اہلسنت دامت برکاتھم العالیہ نے
کتابوں کو محض جمع نہیں کیا، بلکہ مُسلسل مطالعہ، غوروفکر اور عملی کوششیں آپ کے کردارِ عظیم کا
حصّہ ہیں، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کس طرح
مطالعہ فرماتے ہیں، اِس کا اندازہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کے عطا
کردہ مدنی پھولوں سے لگایاجا سکتا ہے۔ ( شوقِ علم ِدین، ص26)
حدیثِ پاک:اَلْعِلْمُ اَ فْضَلٌ مِّنَ الْعِبَادَۃِ کے 18 حُروف کی نسبت سے دینی مطالعہ کرنے کے18 مدنی پھول:
(
از شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بر کا تہم العالیہ)
(1)اللہ عزوجل کی رضا اور حصولِ ثواب کی نیّت
سے مطالعہ کیجیے۔
(2)
مطالعہ شروع کرنے سے قبل حمد وصلوٰۃ پڑھنے کی عادت بنا ئیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:" جس نیک کام سے قبل اللہ تعالی کی حمد اور مجھ پر دُرود نہ پڑھا گیا، اس میں بَرکت نہیں ہوتی۔"
(3)قبلہ
رُو بیٹھئے کہ اس کی برکتیں بے شمار ہیں، چنانچہ حضرتِ سیّدنا اِمام بُرہان الدّین زرنوجی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:" دو طلبہ علمِ دین حاصل کرنے
کے لئے پردیس گئے، دو سال تک دونوں ہم سبق
رہے، جب وطن لوٹے، تو اِن میں سےایک فقیہہ(یعنی زبردست عَالم) بن
چکے تھے، جب کہ دوسرا عِلم وکمال سے خالی ہی رہا تھا، اِس شہر کے عُلمائے کرام نے اس اَمر پر خوب غور و خوض کیا، دونوں کے حصولِ علم کے طریقہ کار، انداز ِتکرار اور بیٹھنے کے اَطوار وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی، تو ایک بات جو کہ نمایاں طور پر سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ جوفقیہہ بن کر پلٹے تھے، اُن کا
معمول یہ تھا کہ وہ سبق یاد کرتے وقت قبلہ رُو بیٹھا کرتے تھے، جبکہ دوسرا جو کہ کورے کاکورا پلٹا تھا، وہ
قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھے کاعادی تھا، چنانچہ تمام علماء، فقہائے کرام اس بات پر مُتفق ہوئے کہ یہ خوش
نصیب اِستقبالِ قبلہ کے اہتمام کی برکت سے فقیہہ بنے، کیونکہ بیٹھے وقت کعبۃ اللہ شریف کی سَمت مُنْہ رکھنا"
سُنّت" ہے۔
(4)
صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے، کیونکہ
عموماً اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے۔
(5)
شور و غل سے دُور پر سکون جگہ پر بیٹھ کر مطالعہ کیجیے۔
(6)اگر
جلد بازی یا ٹینشن (یعنی پریشانی)کی حالت میں پڑھیں گے، مثلاً آپ کو کوئی پُکار رہا ہے اور آپ پڑھے جا رہے ہیں یا اِستنجاء کی حاجت ہے اور آپ
مُسلسل پڑھ رہے ہیں، ایسے وقت میں آپ کا
ذہن زیادہ کام نہیں کرے گا اور غَلَط فہمی کا اِمکان بڑھ جائے گا۔
(7)
کسی بھی ایسے انداز پر، جس سے آنکھوں پر زور پڑے مثلاً بہت (کم) مدھم یا زیادہ
تیز روشنی میں یا چلتے چلتے یا گاڑی میں یا لیٹے لیٹے یا کتاب پر جُھک کر
مطالعہ کرنا آنکھوں کے لیے مُضر یعنی (نقصان دہ) ہے۔
(8)
کوشش کیجئے کہ روشنی اُوپر کی جانب سے آ رہی ہو، پچھلی طرف آنے میں بھی حرج نہیں، مگر سامنے سے آنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
(9)مطالعہ
کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت تَروتازہ ہونی چاہیے۔
(10)وقتِ
مطالعہ ضرورتاً قلم ہاتھ میں رکھنا چاہیے
کہ جہاں آپ کو کوئی بات پسند آئے یا کوئی جُملہ
یا مسئلہ ، جس کی آپ کو بعد میں ضرورت پڑ سکتی ہو، ذاتی کتاب ہونے کی صورت میں اسے انڈر لائن کر سکیں۔
(11)
کتاب کے شروع میں عموماً ایک، دو خالی کاغذ ہوتے ہیں، اس پر یاداشت لکھتے رہئے یعنی "اشارہ"
چند الفاظ لکھ کراس کے سامنے صفحہ نمبر لکھ لیجیے۔
(12)
مُشکل الفاظ پر بھی نشانات لگا لیجئے اور کسی جاننےوالے سے دریافت
کر لیجئے۔
(13)
صرف آنکھوں سے نہیں زبان سے بھی پڑھئے کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے۔
(14)تھوڑی
تھوڑی دیر بعد آنکھوں اور گردن کی ورزش کر
لیجئے، کیونکہ کافی دیر تک مسلسل ایک ہی
جگہ دیکھتے رہنے سے آنکھیں تھک جاتی ہیں
اور بعض اوقات گردن دُکھ جاتی ہے، اس کا
طریقہ یہ ہے کہ آنکھوں کو دائیں بائیں اوپر نیچے گھُمائیں، اسی طرح گردن کو بھی
آہستہ آہستہ حرکت دیجئے ۔
(15)اس
طرح کچھ دیر مطالعہ کرکے دُرود شریف پڑھنا شروع کر دیجیئے اور جب آنکھوں وغیرہ کو کُچھ آرام مل جائے ، تو پھر مطالعہ شروع کر دیجیے۔
(16)ایک
بار کے مطالعہ سے سارا مضمون یاد رہ جانا بہت دُشوار ہے کہ فی زمانہ حافظہ بھی
کمزور اور ہاضمہ بھی کمزور! لہذا دینی کُتب
و رسائل کا بار بار مُطالعہ کیجیے۔
(17)منقولہ
ہے:"اَلسّبَقُ حَرْفٌ وَّالتَّکْرَارُاَ
لْفٌ"یعنی سبق ایک حرف ہو اور تکرار(یعنی دہرائی) ایک
ہزار بار ہونی چاہیے۔
(18)
جو بھلائی کی باتیں پڑھی ہیں، ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی بتاتے رہیں، اِس طرح ان
شاءاللہ عزوجل آپ کو یاد ہو جائیں گی۔ ( شوقِ علمِ دین، ص نمبر 26 تا 28)
فی
زمانہ کوئی کام بغیر علم کے نہیں ہو سکتا، حصولِ علم کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے، مطالعہ بھی ایک فن ہے، اگر اس فن کو صحیح طور پر اپنایا
جائے تو نتائج اچھے نکلیں گے اور اگر غلط طور پر اپنایا جائے تو ظاہر ہے نتائج بھی
اسی قسم کے ہوں گے، آئیے دیکھیں مطالعہ کے لئے کون کون سے آداب و لوازم اختیار کئے جائیں، جن کے مطالعہ سے پورا پورا اِستفادہ
کیا جاسکے۔
سوچیں مطالعہ کیوں کر رہے ہیں؟
سوچیں
کہ آپ کے مطالعہ کا مقصد کیا ہے، کیا وقت
گزارنے کے لیے یا معلومات حاصل کرنے کے لئے یا علم حاصل کرنے کے لئے، کیا یہ مطالعہ آگے چل کر مجھے فائدہ دے گا، اِس کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بامقصد مطالعہ کریں۔
اطمنان سے مطالعہ
کریں:
مطالعہ
کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والے کو داخلی اور خارجی سکون میسر
ہو، مطالعہ کرنے والے کا ذہن و قلب پریشانیوں
اور اُلجھنوں سے بالکل آزاد ہو اور جہاں پر مطالعہ کر رہا ہو، وہاں پر بھی مکمل سکون میسر ہو، اگر وہ ذہنی طور پر مطمئن نہیں تو اس کا دماغ
پڑھے ہوئے کو محفوظ نہیں کر سکے گا، اگر شورو غل والی جگہ پر مطالعہ کر رہا ہے، تو اس کا مطالعہ کرنا بے کار ہو گا۔
وقت:
ایسے
وقت میں مطالعہ کریں کہ آپ کا ذہن تروتازہ ہو، صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہتر ہے، جو پڑھایا جائے اسے وقت پر (time to time ) یاد کر لیا جائے، ہر روز کم از کم دو گھنٹے مطالعہ کریں، بہترین مطالعہ کے لئے ٹائم مینجمنٹ بے حد ضروری
ہے، امتحانات(exams ) سے پہلے ہی مطالعہ کر لیا جائے۔
کلیدی الفاظ استعمال کریں(use key words or points):
کلیدی
الفاظ استعمال کرنا مطالعہ کو با اثر اور آسان بناتا ہے اور مطالعہ ذہن نشین ہو جاتا ہے، اس کے لئے جو سبق یا(topic ) موضوع ہے، اس میں سے اہم چیزوں(Main
point ) کو نوٹ(underline ) کریں اور یاد رکھیں، لکھ کر یاد کرنے سے اچھا یاد ہوتا ہے، اللہ تعالی
کا نام لے کر مطالعہ شروع کریں اور یہ دعا کریں کہ جو کچھ
پڑھا، اسے یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین
(مفتی
محمد قاسم عطاری کا ویڈیو بیان ، لنکHttps11you
tube/02xy7tvsi-1، اور مطالعہ کیوں اور کیسے؟)
وقت دو دھاری تلوار ہے جسے اگر آپ نے نہ
کاٹا تو یہ آپ کو کاٹ دے گی۔ وقت کے مثبت اور بہترین استعمالات میں سے ایک
استعمال، اسے مطالعہ کتب میں صَرف کرنا ہے۔ مطالعہ کرنے سے ذہنی استعداد و قابلیت
میں اضافہ ہوتا ہے، فکر پختہ ہوتی ہے، علم میں اضافہ ہوتا ہے، گفتگو پر دلیل ہوتی
ہے، سکون قلب نصیب ہوتا ہے، الفاظ کا ذخیرہ وسیع ہوتا ہے، ایمان مضبوط ہوتا ہےاور
وسعت النظری پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ ایک فن ہے جو ہمیں کم وقت میں زیادہ سیکھنے میں
مدد دیتا ہے۔ مگر مطالعہ کیسے کیا جائے کہ
اس کے بہترین نتائج حاصل ہو سکیں؟ بعض لوگ
مطالعہ اِس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کا اس مطالعہ سے صرف وقت گزرتا ہےاور کوئی
خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ آئیے چند اہم نکات پڑھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے پہلے اپنے
آپ سے چند سوالات کر لیجیے۔
(١)میرے اس مطالعہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟
(٢)کیا اس کتاب کا مطالعہ میرے علم و عمل
میں اضافے کا باعث بنے گا یہ نہیں؟
(٣) اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟
مطالعہ کرنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب
کریں جہاں شور نہ ہو اور اگر علیحدہ کمرہ میسر ہو تو مدینہ مدینہ۔ روشنی اور درجہ
حرارت مناسب ہو۔ نہ زیادہ پیٹ بھر کر کھایا ہوا ہو ،نہ ہی پیٹ بالکل خالی ہو۔ قضائے
حاجت سے فارغ ہو لیجئے اور وہ تمام چیزیں
جن کی ضرورت پڑ سکتی ہے (جیسے کاپی، پنسل، highlighter وغیرہ) اپنے پاس مطالعہ شروع ہونے
سے پہلے ہی رکھ لیں اور تمام غیر ضروری
اشیاء (موبائل، laptop وغیرہ) دور رکھ
دیجیے۔ غرض یہ کہ ہر وہ چیز جو مطالعہ کے دوران آپ کی یکسوئی میں خلل ڈال سکتی ہے،
اسے پہلے ہی دور کر لیجئے تاکہ مستقل
مزاجی برقرار رہ سکے۔ مطالعہ کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیجئے جب آپ کا دماغ بالکل ترو تازہ ہو۔ صبح کا وقت
مطالعہ کرنے کے لیے بہترین ہے کہ اس وقت شور بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، دماغ
تقربیاً تمام فکروں سے آزاد ہوتا ہے اور بالکل
ترو تازہ ہوتا ہے۔مطالعہ کے دوران(اگر کتاب ذاتی ہو تو) اہم نکات کو پنسل سے مارک
کر لیجیے یا علیحدہ کاپی پر نوٹ کر لیجیے۔ یوں آپ کتابوں کے اہم نکات لکھتے چلے
جائیں گے اور یہ کاپی ایسی بن جائے گی گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔
کام
کوئی بھی ہو، باقاعدگی اور مستقل مزاجی ،کامیابی کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ یہی معاملہ مطالعہ کا ہے۔ اگر اس پر
استقامت مل جائے تو ترقی کی وہ منازل طے
کی جاسکتی ہیں جو ویسے تقریباً ناممکن
ہیں۔مطالعہ اتنی غور سے کریں کہ آپ اس کتاب کا نچوڑ کسی کے بھی سامنےبیان کرنے کے
قابل ہو جائیں۔ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کی فہرست(index)
کو دوبارہ دیکھیے اور analyze کیجیے کہ
کیا آپ کو اس کتاب کے تمام نکات پر دسترس حاصل ہوگئی ہے۔ جس موضوع میں کمی محسوس
ہو یا یاد نہ ہو اسں کا دوبارہ باغور مطالعہ کریں۔
تحقیق کے مطابق انسانی دماغ 24 گھنٹے بعد ان چیزوں کو بھلانا شروع کر دیتا ہے ،جن کی تکرار
نہ کہ جائے ۔اسی لیے 24 گھنٹوں کے اندر ہی اسے دہرانے کی ترکیب کیجئے ۔ ان شاء اللہ مطالعہ کیا ہوا یاد رہے گا۔ عموماً ایک ہی موضوع جیسے تصوف، احادیث وغیرہ کی چند
کتب پڑھ لی جائیں تو باقی کتب میں انہی باتوں کا تکرار ملتا ہے اور چند نئی باتیں
ہوتی ہیں۔ ایسے میں پوری کتاب کا باغور
مطالعہ کرنے کی بجائے جو پرانی معلومات ہیں انھیں سرسری پڑھ کر گزار دینے اور جو نئی معلومات ہیں انھیں باغور مطالعہ
کرنے سے کم وقت میں زیادہ علم حاصل کیا
جاسکتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اچھی کتب کا درست انداز میں مطالعہ
کرنے، اسے یاد رکھنے، اس پر عمل کنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے
۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اسلامی کُتُب کا خوب مطالعہ کرتے
رہنا چاہئے، اس طرح ذہن کھلتا ہے، مگر اُونگھتے اونگھتے پڑھنا غلط فہمیوں میں ڈال سکتا ہے، لہذا مطالعہ کرنے کا درست طریقہ
سب کو سیکھ لینا چاہئے، اس کے متعلق کچھ
مدنی پھول قبول فرمائیے، ان شاءاللہ عزوجل درست مطالعہ سیکھ جائیں
گے:
1۔اللہ عزوجل کی رضا اور حصولِ ثواب کی نیت سے
مطالعہ کیجئے۔
2۔مطالعہ
شروع کرنے سے قبل حمدو صلوۃ پڑھنے کی عادت بنائیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:" جس نیک کام سے قبل اللہ عزوجل کی حمد اور مُجھ پر دُرود نہ پڑھا گیا، اس میں برکت نہیں ہوتی۔"( کنز العمال، ج 1، ص279، حدیث2507)
3۔
صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے، کیونکہ
عموماً اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور
ذہن زیادہ کام کرتا ہے۔
4۔
شوروغل سے دور پُرسکون جگہ پر مطالعہ کیجئے۔
5۔
صرف آنکھوں سے نہیں زبان سے بھی پڑھیئے کہ
اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے۔
6۔مطالعہ
کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت تروتازہ ہونی چاہئے۔
7۔
وقتِ مطا لعہ ضرورتاً قلم ہاتھ میں رکھنا چاہئے، کہ جہاں آپ کو کوئی بات پسند یا کوئی ایسا جملہ یا
مسئلہ جس کی آپ کو بعد میں ضرورت پڑ سکتی
ہو، ذاتی کتاب ہونے کی صورت میں اسے
انڈرلائن کرسکیں۔
8۔
ایک بار کے مطالعے سے سارا مضمون یاد رہ جانا بہت دشوار ہے کہ فی زمانہ ہاضمے بھی کمزور اور حافظے بھی کمزور ، لہذا دینی کتب
و رسائل کا بار بار مطالعہ کیجئے۔
9۔
جو بھلائی کی باتیں پڑھی ہیں، ثواب کی نیت
سے دوسروں کو بتاتے رہئے، اِس طرح انشاء اللہ آپ کو یاد ہو جائیں گی۔( علم و
حکمت کے125 مدنی پھول)
اللہ پاک ہمیں درست مطالعہ کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم
اکثرا
وقات طلبہ و طالبات اس بات کا شکوہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہوتے ہیں کہ ہم اکثر اوقات پڑھتے رہتے ہیں اور اپنا زیادہ
وقت پڑھائی کو دیتے ہیں، لیکن پھر بھی سبق یاد نہیں ہوتا یا امتحان کی
تاریخیں نزدیک آ جاتی ہیں، امتحان کی تیاری پوری نہیں ہوپاتی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طالبات کا مطالعہ کرنے کا طریقہ درست نہیں ہے، ذیل
میں کچھ ایسے طریقے، تجاویز ہیں جن پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر طالبات کو مطالعے میں آسانی ہوگی:
سبق یاد کرنے کا بہتر طریقہ:
سبق
یاد کرنے سے پہلے اس وقت کو منتخب کریں، جب آپ تازہ دم ہوں اور جگہ کا انتخاب کریں جہاں یکسوئی کے ساتھ سبق یاد
کیا جاسکے، سبق یاد کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیں
اور حمدِ باری تعالی کی نیت سے الحمدللہ
رب العالمین پڑھیں، اب سبق کو
اوّل تا آخر پورا پڑھ لیں اور اس کا مفہوم بھی سمجھ لیں، اگر عربی عبارت یاد کر
رہے ہیں تو پہلے سبق کو اُردو میں ترجمہ کریں اور پھر مفہوم کو سمجھیں، سبق طویل ہو تو دو یا تین حصّوں میں تقسیم کر لیں،
ہر حصّے کے اہم الفاظ کو نشان زد کرلیں، درمیانی آواز سے پڑھیں، آواز سے پڑھنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ آواز کے ساتھ
یاد کرنے میں ہمارے تین حواس یعنی آنکھ، زبان اور کان استعمال ہوں گے اور جو بات تین حو
اس کے ذریعے دماغ تک پہنچے گی، انشاءاللہ عزوجل جلد یاد ہوگی۔ ( کامیاب طالب علم کون، صفحہ نمبر37)
ایک
آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی بارگاہ میں حافظہ کی خرابی کی شکایت کی، تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے خط یعنی لکھنے کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے فرمایا:"اپنے دائیں ہاتھ سے مدد طلب کر۔"( کنز العمال، کتاب العلم، ج 10، ص107)
اسباق کی دہرائی کا طریقہ:
اپنا
ایک ہدف طے کر لیں کہ میں فلاں مضمون کے
اتنے اَسباق روزانہ دہرایا کروں گا، اس ہدف
کو طے کرتے وقت امتحان کی تیاری کے لئے ملنے والے عرصے کو ضرور مدِّ نظر رکھیں اور ہدف ایسا نہ ہو جس
تک پہنچنا آپ کے لیے بے حد دشوار ہوجائے اور یہ سلسلہ کاغذی کاروائی سے آگے نہ بڑھ
سکے، ہدف طے کرنے
کے بعد اسے اپنے پاس جدول کی صورت میں لکھ لیں۔( امتحان کی تیاری کیسے کریں، صفحہ نمبر12تا13)
روزمرہ مطالعے کا جدول بنانا:
طالب
علم کو چاہئے کہ اپنا ایک جدول بنائے، جس
میں ہوم ورک کرنے ، اگلے دن کے اسباق تیار
کرنے، خار جی مطالعہ کرنے اور نیکی کی
دعوت عام کرنے کے اوقات مقرر کر لے، جدول پر عمل کی برکت سے تمام کام اپنے وقت پر
ہوں گے، اگر طالب علم اپنے وقت کو اِدھر
اُدھر کے کاموں میں ضائع کرنے کی عادت
بنالے تو قوی اِمکان ہے کہ وہ علم کی برکتوں سے محروم رہ
جائے، رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے کہ :
بندے
کا غیر مفید کاموں میں مشغول رہنا ، اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالی نے اس سے اپنی نظرِ عنایت پھیر لی
ہے اور جس مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے، اگر اس کی زندگی کا ایک لمحہ
بھی اس کے علاوہ گزر گیا تو وہ اس بات کا کا
حقدار ہے کہ اس پر عرصہ حسرت دراز کر دیا جائے۔
( الفردوس بماثور الخطاب، باب المیم، الحدیث 5544، ج3، ص498)
چند اہم باتیں:
1:سبق
کو بغیر سمجھے رٹنے کی کوشش نہ کریں کہ بغیر سمجھے رٹا ہوا سبق جلد بھول جاتا ہے ۔
2:یاد
کرنے میں ترتیب یوں رکھئے کے پہلے آسان سبق یاد کریں پھر مشکل، پھر اُس سے مشکل، علی ھذاالقياس
3:اس
دوران کسی سے گفتگو نہ فرمائیں۔
4:نگاہ
کو آزاد نہ چھوڑیں کہ سبق یاد کرنے میں
خلل پڑے گا۔
5:
اگر نفس سبق یاد کرنے میں سُستی دلائے تو
اسے سزا دیجئے، مثلاً کھڑے ہو کر سبق یاد
کرنا شروع کر دیں، جب تک سبق یاد نہ ہو ، کھانا نہ کھائیں یا پانی نہ پئیں۔ ( امتحان کی
تیاری کیسے کریں، صفحہ نمبر21)
مندرجہ
بالا باتوں کو مدِّنظر رکھ کر وقت ضائع کرنے سے بچتے ہوئے مطالعہ کیجئے، اپنی صحت کا خیال رکھئے، نیند وقت پر اور پُوری طرح سکون سے لیں، خورا ک
متوازن استعمال کریں اور ساتھ استاد کا حکم بجا لائے، جو کام جتنا استاد دیں یاد کرکے جائیں، حسنِ ظن رکھئے اور زیادہ سے زیادہ سرورِکائنات، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کا نذرانہ بھیجئے تاکہ کرم ہو جائے۔
مطالعہ
کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ مطالعہ کے لئے سازگار ماحول کا ہونا بہت بہت مفید ہے،
لہذا کتاب ہاتھ میں لے کر بالکل یکسو ہو کر ایسی جگہ پر بیٹھا جائے، جہاں شور شرابا نہ ہو اور کتاب کے ساتھ آپ کے داہنی جانب ایک عدد کاپی اور قلم بھی موجود
ہو، جو اہم نکات ہوں وہ کاپی میں نوٹ کرتے
جائیں تاکہ بوقتِ ضرورت کام آ سکیں اور مسلسل 6 گھنٹے مطالعہ کرنا مفید نہیں کہ
ہمارا جسم ایک مشین کی طرح ہے، جس طرح مشین سے اس کی طاقت سے زیادہ کام لیا
جائے تو وہ خراب ہو سکتی ہے، تو ہی مسلسل
چھ گھنٹے مطالعہ سے ہمارے جسم میں بھی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں، لہذا ایک وقت میں دو گھنٹے سے زائد مطالعہ نہ کیا جائے اور دو
گھنٹے کے بعد دماغ کی رفتار بھی سُست پڑنا شروع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے مطالعہ کا کماحقہ فائدہ حاصل نہیں
ہوتا۔
مطالعہ کی عادت یاداشت کو تیز کرتی ہے، کسی بھی مضمون، تحریر کو پڑھتے وقت اس میں اپنی ذات کو شامل کر لیں، ماہرینِ نفسیات کے مطابق:"جس کام میں ہماری
اپنی ذات شامل ہوتی ہے، وہ ہمیں زیادہ دیر
تک یاد رہتی ہے۔"
بھوکے
پیٹ یا کم از کم پیٹ کو تھوڑا خالی رکھ کر مطالعہ کیا جائے، کسی چیز کے ساتھ نہ تکیہ لگایا جائے اور نہ ہی
کرسی یا چارپائی پر بیٹھنا چاہئے، بلکہ نیچے چٹائی پر بیٹھ کر مطالعہ کیا جائے۔
مطالعہ کتب ایسا بیش بہا خزانہ ہے کہ جس سے
انسان نہ صرف دینی پیشوا بن سکتا ہے، بلکہ روحانی مقتد ا بننے کے علاوہ وہ دین و دنیا کی مرکزیت حاصل کر لیتا ہے، مطالعہ
کرتے وقت بلا ضرورت بات نہ کریں، اگر ہو سکے تو مطالعے سے پہلے دو نفل پڑھیں، مطالعہ کرتے وقت جتنا سمجھ آجائے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔
نکتہ:
کسی کو بار بار غور سے دیکھا جائے تو اگرچہ وہ غیر واقف ہو، لیکن بار بار دیکھنے سے وہ سمجھتا ہے کہ شاید
اسے میرے سے کوئی تعلق ہے، اس لئے دیکھنے
والے سے وجہ پوچھتا ہے، اسی طرح طالب علم
نے کتاب کو جب بار بار دیکھا تو کتاب کو اس کے حال پر رحم آیا، تو اس نے اپنے انواروبرکات سے طالب علم کو
بھرپور کردیا۔
حکایت:
حکیم
ابو نصرفارابی جن کا عالم میں بڑا شہرہ ہے، زمانہ طالب علمی میں رات کو راستے میں پاسبانوں کی قندیلوں تلے کھڑے ہو کر کتاب کا
مطالعہ کرتے تھے۔
"زندگی میں کامیابی چاہئے تو کبھیlearning
mode سے باہر نہ نکلیں"
"اگر
کامیابی اور نجات چاہئے تو کبھی سیکھنے کے زمانے سے اپنے آپ کو مستغنٰی نہ سمجھیں،
کہ اب مجھے سیکھنے کی حاجت نہیں، زندگی کے آخری لمحے تک علم فائدہ ہی دیتا ہے۔"
مطالعہ کرنے کے آداب :مطالعہ
کرتے وقت اِس کے آداب کا خاص خیال رکھا جائے، مطالعہ کرتے وقت نہ زیادہ بھوک لگی ہو اور نہ
اتنا پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہوا ہو کہ توجّہ ادھر ہی رہے، پانی پی
کر بیٹھیں، واش روم کی حاجت سے فارغ ہو کر بیٹھیں اور شور نہ ہو، اگر اِن چیزوں کو مدِّنظر رکھ کر مطالعہ کریں گے
تو بہت اچھا مطالعہ ہوگا ۔
مطالعہ کا مقصد:بامقصد مطالعہ کیا جائے،
مطالعہ پر غور کیا جائے کہ کیوں کر رہا
ہوں، کیا صرف وقت گزارنے کے لئےیا معلومات
حاصل کرنے کے لئے، یہ معلومات اور علم
مجھے فائدہ دے گا یا نہیں دے گا ؟
مطالعہ کرنے کا طریقہ:سب سے
پہلے کتاب کی فہرست پڑھی جائے، اس کے بعد سَرسَری
مطالعہ کیا جائے، یعنی کسی بھی موضوع کا اِبتداء اور انِتہا، اس کے بعد مکمل طور پر کتاب کا
مطالعہ کریں اور آخر میں فہرست پر نظر دوڑائیں،
اگر محسوس ہو کہ یہ سب میری معلومات میں آ چکی ہیں تو ٹھیک، ورنہ صرف وہ پوائنٹ جو سمجھ نہ آئے ان کو پڑھا
جائے، اِس کے ساتھ ساتھ اگر کتاب کے مواد
کوunder line کرلیں یا ساتھ
ڈائری رکھ کر لکھ لیں تو اس طرح گویا کتاب
کو نچوڑ کر اپنے اندر اُنڈیل لیا گیا ہو، یہ
مطالعہ کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
بہت
عرصہ مطالعہ میں صرف ہونے کے بعد دوبارہ مطالعہ میں توجّہ زیادہ اس پر ہوتی ہے جو کہ نہ پڑھا ہواہو، جو تکرار کی صورت میں آئے اس پر فقط نظر ڈالیں۔
مطالعہ
کا شوق رب تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ اس کے فوائد پر نظر ڈالی جائے تو معلوم
ہوتا ہے کہ اس کے کثیرفوائد ہیں : مطالعہ اگر تعلیمات اسلامی اور تعلیمات توحید و
رسالت پر مشتمل ہو تو یہ ایمان کی تازگی اور پختگی کا باعث بنتاہے۔ مطالعہ سے بندے
کے علم و فہم اور عقل و شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ علامہ مناوی رحمۃُ اللہِ
علیہفرماتے
ہیں کہ : "علم کے علاوہ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کسی چیز میں اضافہ
کی دعا کا حکم نہ دیا گیا۔
(
فيض القدير شرح جامع صغیر، جلد 2، صفحہ 432، تحت رقم الحديث 1506، مطبوعہ دار
الحديث، قاهره)
مطالعہ
انسان کی دینی و دنیاوی ترقیوں کا سبب بنتا ہے۔ مطالعہ اسی وقت مفید ہوتا ہے، جب
اسے اس کے اصولوں و ضوابط کے مطابق کیا جائے ۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے ذوق و شوق
اور طبیعت کے موافق فن کا مطالعہ کرے۔ مختلف فنون اورغیر منظم مطالعہ بندے کے ذہن
کو منتشر کر دیتا ہے، بالآخر وہ دلبرداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دیتا ہے یوں وہ کتابوں کی
صحبت وبرکت سے محروم ہو جاتا
ہے۔
کسی فن کے مطالعے کی ابتدا اس کی ابتدائی اور آسان کتب سے کی جائے۔ کتاب کو اس
انداز
سے پڑھا جائے گویا کہ پہلی اور آخری بار پڑھی جارہی ہے۔ مطالعہ ایسی جگہ کیا جائے
جہاں کسی کی دخل اندازی کااندیشہ نہ ہو، وہاں توجہ بٹنے والے مناظر بھی نہ ہوں،
اور وہ پر سکون ہو یعنی وہاں شور و غل نہ ہو۔مطالعہ کے لیے ایک وقت متعین کرنا
ضروری ہے۔ کیونکہ وقت کے تعین سے وقت کی کمی والا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جاتا ہے۔
مشہور
مقولہ ہے:"توزيع الوقت توسيع الوقت، وقت
کی درست تقسیم کاری وقت میں وسعت
پیدا
کرتی ہے۔
مطالعہ مکمل انہاک ، طبیعت کی ترو تازگی اور یکسوئی
کے ساتھ کیا جائے۔ ہمارے بزرگان دین کا مطالعہ میں استغراق کیسا تھا؟ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ
: امام مسلم رحمۃُ اللہِ علیہ نے مطالعہ کرتے کرتے ضرورت سے زیادہ کھجوریں کھائیں، جس کا انہیں پتا نہ
چلا، اور وہ آپ کی وفات کا سبب بنا۔ (تذکر ۃ المحد ثین ، صفحہ 123)
مطالعہ کرتے وقت دل غم و غصہ ، تشویش و اضطراب
سے خالی ہو، مطالعہ کرتے وقت ایک قلم اور کاپی بھی ساتھ ہو، جس پر کتاب کے اہم
نکات اور نئی نئی باتیں نوٹ کی جائیں، اس کے ساتھ ہو سکے تو کتاب کی ایک فیس بھی تیار
کر لی جائے جوکتاب کا نچوڑ ہو۔ مطالعہ سے قبل بسم اللہ اور درود شریف پڑھنے سے اس کی برکتیں نصیب ہوں گی۔
مطالعہ
کے دوران وقفے وقفے سے کتاب سے نظر ہٹا کر ذکر اللہ اور درود شریف کرنے سے ثواب کے ذخیرے کے ساتھ
ساتھ آنکھوں کوآرام ملے گا۔
مطالعے
کے لیے ایسا کوئی بھی انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے آنکھوں پر زور پڑے: مثلا بہت
مد هم یا
بہت تیز روشنی میں یا چلتے یا گاڑی میں مطالعہ کرنا۔
اللہ تعالی ہمیں درست انداز میں بامقصد مطالعہ کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ"سرکارِ
نامدار، مدینے کے تاجدار ، دو عالم کے
مالک و مختار صلی اللہ علیہ و سلم
نے ارشاد فرمایا:" مَا مِنْ شَیءِِ بُدِیءَ
فی یوم الابعاء اِلَّا وَقَدْتّمَ۔
یعنی کوئی ایسا عمل نہیں جسکی ابتداء بدھ
سے ہوئی ہو اور وہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچا ہو۔"
جہاں ہمیں احادیثِ مبارکہ سے علمِ دین حاصل کرنے
کے فضائل کا معلوم ہوتا ہے، وہیں ہمیں
مطالعہ کرنے کی بھی اہمیت کا معلوم ہوتا ہے، اگر ہر مطالعہ کرنے والا شخص اِن اصولوں کے
مطابق عمل کرلے تو اس کا مطالعہ کرنا مفید اور زیادہ دیرپا ہو گا۔
مطالعہ
شروع کرنے سے پہلے جن امور کا خیال رکھنا چاہئے"
1۔مطالعہ
شروع کرنے سے پہلے با وضو ہو۔
2۔مطالعہ
کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مطالعہ کرنے کے وقت اپنا رُخ قبلہ کی سمت کر لے۔
3۔
مطالعہ کرنے بیٹھے تو پہلے بسم اللہ
الرحمن الرحیم پڑھ لے، کہ
نیک کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، حدیث مبارکہ میں
ارشاد ہوتا ہے کہ:
ترجمہ:"
یعنی جو بسم اللہ سے شروع نہیں کیا جاتا، وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔"
(کنز العمال، کتاب الاذکار، ج1، ص277)
4۔اس
کے بعد دل میں ہی سہی اللہ تعالی
سے دعا کر لینی چاہئے۔
5۔مطالعہ
کرنا ہو تو وہ با مقصد ہو بے مقصد نہ ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مقصد ضرور ہو
تو فائدہ ضرور اچھا حاصل ہو گا۔
6۔مطالعہ
کرنے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جہاں شور و غُل نہ ہو رہا ہو۔
7۔
مطالعہ کرنے کے وقت نہ اتنا زیادہ کھایا ہو کہ دھیان بار بار اسی
طرف جائے اور نہ اتنا کم کھایا ہو کہ مطالعہ
کرنے میں دلچسپی اور لذت محسوس نہ ہو۔
8۔تمام
شرعی اور طبعی حاجات سے فارغ ہو کر مطالعہ کرنے بیٹھے۔
9۔ مطالعہ کرنے والے کے لئے ضروری ہے
کہ وہ مطالعہ کی ابتداء اس چیز سے کرے جو اس کی فہم کے قریب تر ہو۔
10۔
مطالعہ کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ مطالعہ شدہ چیز کا دوسرے سے مذاکرہ کرلے۔
11۔ مطالعہ کرنے والے کے لئے مناسب ہے
کہ مطالعہ سے جو حاصل ہو اسے لکھ لے کہ اس
طرح بہت مفید ہوتا ہے، مشہور مقولہ ہے:"
قید العلم بالکتابۃ
12۔مطالعہ
کرنے والا دوسرے مطالعہ کرنے والے کی صحبت اختیار کرے، کیونکہ طبیعت اثر کو قبول کرتی ہے اور خصلتیں متعدی ہوتی ہیں اور صحبت ایک
دن ضرور رنگ لاتی ہے۔
حکایت: ایک مرتبہ حضرت سیّدنا ابِن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا: آپ رضی اللہ عنہ نے اتنا علم کیسے حاصل کیا؟ تو آپ رضی اللہ عنہنے فرمایا:"بلسان سؤلِِ و قلب عُقولِِ
یعنی
بہت زیادہ سوال کرنے والی زبان اور بیدار دل کے ذریعے ۔"(کتاب راہِ علم، ص 61)
13۔مطالعہ
کرنے والے کے لئے بہترین وقت ابتدائے جوانی
، وقتِ سحر اور مغرب و عشاء کے درمیان کا وقت ہے۔
14۔
مطالعہ کرنے والا ایک ہی موضوع پڑھ کر اُکتا جائے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی دوسرے
موضوع کو پڑھ لے۔حضرت سیّدنا ابِن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ آپ
رضی اللہ عنہ جب عمومی گفتگو سے اُکتا
جاتے تو شعراء کے دیوان منگوا کر انہیں پڑھنے لگ جاتے۔ (کتاب راہِ
علم، ص 73)
15۔مطالعہ
کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
٭
ایک مطالعہ درسی کتب کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے۔
٭
دوسرا مطالعہ اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، اپنے علم میں اضافے کے لئے جو مطالعہ کیا جاتا
ہے، اس کا طریقہ کار کچھ اس طرح سے ہے کہ
مطالعہ کرنے سے پہلے اس کتاب کے مصنف کے بارے میں پڑھے تا کہ اس کے پڑھنے میں
دلچسپی ہو، پھر اس کی فہرست کا مطالعہ کرلے،
اگر فہرست میں کچھ سمجھ میں نہ آئے تو اس کا باقاعدگی کے ساتھ
مطالعہ کرے، پھر کتاب کا سرسری مطالعہ کرے،
سرسری مطالعے میں جو مشکل اور نئے الفاظ ملے، ا سے اپنی ڈائری میں
نوٹ کر لے تاکہ جب دوسرا مطالعہ کرے تو وہ
مطالعہ کرنے والے کے لئے آسان ہو جائے۔اس طرح
مطالعہ کرنے سے ایک کتاب کے مواد کا نچوڑ حاصل ہو جائے گا۔
اللہ
کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں خوب خوب مطالعہ کرنے کا ذوق و شوق عطا فرمائے اور علمِ
دین کو سمجھنا ہمارے لئے آسان فرمائے۔اٰمین