اوراق
پلٹنے، صفحات گننے اور اِس میں لکھی ہوئی
سیاہ لکیروں پر نظر ڈال کر گزر جانے کا
نام مطالعہ نہیں، امیرِ اہلسنت دامت برکاتھم العالیہ نے
کتابوں کو محض جمع نہیں کیا، بلکہ مُسلسل مطالعہ، غوروفکر اور عملی کوششیں آپ کے کردارِ عظیم کا
حصّہ ہیں، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کس طرح
مطالعہ فرماتے ہیں، اِس کا اندازہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کے عطا
کردہ مدنی پھولوں سے لگایاجا سکتا ہے۔ ( شوقِ علم ِدین، ص26)
حدیثِ پاک:اَلْعِلْمُ اَ فْضَلٌ مِّنَ الْعِبَادَۃِ کے 18 حُروف کی نسبت سے دینی مطالعہ کرنے کے18 مدنی پھول:
(
از شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بر کا تہم العالیہ)
(1)اللہ عزوجل کی رضا اور حصولِ ثواب کی نیّت
سے مطالعہ کیجیے۔
(2)
مطالعہ شروع کرنے سے قبل حمد وصلوٰۃ پڑھنے کی عادت بنا ئیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:" جس نیک کام سے قبل اللہ تعالی کی حمد اور مجھ پر دُرود نہ پڑھا گیا، اس میں بَرکت نہیں ہوتی۔"
(3)قبلہ
رُو بیٹھئے کہ اس کی برکتیں بے شمار ہیں، چنانچہ حضرتِ سیّدنا اِمام بُرہان الدّین زرنوجی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:" دو طلبہ علمِ دین حاصل کرنے
کے لئے پردیس گئے، دو سال تک دونوں ہم سبق
رہے، جب وطن لوٹے، تو اِن میں سےایک فقیہہ(یعنی زبردست عَالم) بن
چکے تھے، جب کہ دوسرا عِلم وکمال سے خالی ہی رہا تھا، اِس شہر کے عُلمائے کرام نے اس اَمر پر خوب غور و خوض کیا، دونوں کے حصولِ علم کے طریقہ کار، انداز ِتکرار اور بیٹھنے کے اَطوار وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی، تو ایک بات جو کہ نمایاں طور پر سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ جوفقیہہ بن کر پلٹے تھے، اُن کا
معمول یہ تھا کہ وہ سبق یاد کرتے وقت قبلہ رُو بیٹھا کرتے تھے، جبکہ دوسرا جو کہ کورے کاکورا پلٹا تھا، وہ
قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھے کاعادی تھا، چنانچہ تمام علماء، فقہائے کرام اس بات پر مُتفق ہوئے کہ یہ خوش
نصیب اِستقبالِ قبلہ کے اہتمام کی برکت سے فقیہہ بنے، کیونکہ بیٹھے وقت کعبۃ اللہ شریف کی سَمت مُنْہ رکھنا"
سُنّت" ہے۔
(4)
صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے، کیونکہ
عموماً اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے۔
(5)
شور و غل سے دُور پر سکون جگہ پر بیٹھ کر مطالعہ کیجیے۔
(6)اگر
جلد بازی یا ٹینشن (یعنی پریشانی)کی حالت میں پڑھیں گے، مثلاً آپ کو کوئی پُکار رہا ہے اور آپ پڑھے جا رہے ہیں یا اِستنجاء کی حاجت ہے اور آپ
مُسلسل پڑھ رہے ہیں، ایسے وقت میں آپ کا
ذہن زیادہ کام نہیں کرے گا اور غَلَط فہمی کا اِمکان بڑھ جائے گا۔
(7)
کسی بھی ایسے انداز پر، جس سے آنکھوں پر زور پڑے مثلاً بہت (کم) مدھم یا زیادہ
تیز روشنی میں یا چلتے چلتے یا گاڑی میں یا لیٹے لیٹے یا کتاب پر جُھک کر
مطالعہ کرنا آنکھوں کے لیے مُضر یعنی (نقصان دہ) ہے۔
(8)
کوشش کیجئے کہ روشنی اُوپر کی جانب سے آ رہی ہو، پچھلی طرف آنے میں بھی حرج نہیں، مگر سامنے سے آنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
(9)مطالعہ
کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت تَروتازہ ہونی چاہیے۔
(10)وقتِ
مطالعہ ضرورتاً قلم ہاتھ میں رکھنا چاہیے
کہ جہاں آپ کو کوئی بات پسند آئے یا کوئی جُملہ
یا مسئلہ ، جس کی آپ کو بعد میں ضرورت پڑ سکتی ہو، ذاتی کتاب ہونے کی صورت میں اسے انڈر لائن کر سکیں۔
(11)
کتاب کے شروع میں عموماً ایک، دو خالی کاغذ ہوتے ہیں، اس پر یاداشت لکھتے رہئے یعنی "اشارہ"
چند الفاظ لکھ کراس کے سامنے صفحہ نمبر لکھ لیجیے۔
(12)
مُشکل الفاظ پر بھی نشانات لگا لیجئے اور کسی جاننےوالے سے دریافت
کر لیجئے۔
(13)
صرف آنکھوں سے نہیں زبان سے بھی پڑھئے کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے۔
(14)تھوڑی
تھوڑی دیر بعد آنکھوں اور گردن کی ورزش کر
لیجئے، کیونکہ کافی دیر تک مسلسل ایک ہی
جگہ دیکھتے رہنے سے آنکھیں تھک جاتی ہیں
اور بعض اوقات گردن دُکھ جاتی ہے، اس کا
طریقہ یہ ہے کہ آنکھوں کو دائیں بائیں اوپر نیچے گھُمائیں، اسی طرح گردن کو بھی
آہستہ آہستہ حرکت دیجئے ۔
(15)اس
طرح کچھ دیر مطالعہ کرکے دُرود شریف پڑھنا شروع کر دیجیئے اور جب آنکھوں وغیرہ کو کُچھ آرام مل جائے ، تو پھر مطالعہ شروع کر دیجیے۔
(16)ایک
بار کے مطالعہ سے سارا مضمون یاد رہ جانا بہت دُشوار ہے کہ فی زمانہ حافظہ بھی
کمزور اور ہاضمہ بھی کمزور! لہذا دینی کُتب
و رسائل کا بار بار مُطالعہ کیجیے۔
(17)منقولہ
ہے:"اَلسّبَقُ حَرْفٌ وَّالتَّکْرَارُاَ
لْفٌ"یعنی سبق ایک حرف ہو اور تکرار(یعنی دہرائی) ایک
ہزار بار ہونی چاہیے۔
(18)
جو بھلائی کی باتیں پڑھی ہیں، ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی بتاتے رہیں، اِس طرح ان
شاءاللہ عزوجل آپ کو یاد ہو جائیں گی۔ ( شوقِ علمِ دین، ص نمبر 26 تا 28)