تمام
تعریفیں ربِّ لم یزل کے لئے
جس نے انسان کو عِلم کے حُصول کا حکم دیا،
اس کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اپنا سب سے پہلا پیغام اِنسانیّت کے نام بھی یہی
بھیجا اور اِرشاد فرمایا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) ترجمہ
کنزالایمان :"پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا
کیا۔ ( العلق: 1)
مطالعہ
عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی "غور و فکر اور توجّہ و دھیان" کے ہیں، کسی چیز
کو جاننے اور اِس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے اُسے دیکھنا، پَرکھنا، سمجھنا، کسی تحریر یا کتاب کو غور سے پڑھنا
اور اُستاد سے سبق پڑھنے سے پیشتر طالب علموں کا سبق کے معنٰی مطلب پر غور کرنا
اور عبارت کے معنٰی و مفہوم کو سمجھنا"
مطالعہ" کہلاتا ہےاور عُرفِ عام میں مطالعہ کا اِطلاق کتب بینی اور کتاب کی وَرق گردانی پر بھی ہوتا ہے، اِس طرح مطالعہ کا مفہوم یہ ہوا کہ" آدمی
کتابوں کو پڑھ کر اُن کے مضامین اپنے ذہن و دماغ میں اُتارے اور ان کی مشمولات کو
ہضم کرے۔
مطالعہ اصولِ علمِ دین کا ذریعہ ہے:اعلٰی
حضرت ، عظیم المرتبت، مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"علم
کتابوں کے مطالعہ سے اور علماء سے سُن سُن کر بھی حاصل ہوتا ہے ۔" ( تلخیص اَز احکامِ شریعت)
امیر
اہلِ سُنت مولانا ابو بلال الیاس قادری رضوی د امت برکا تھم العالیہ فرماتے
ہیں:
(1)
مطالعہ علمِ دین کی جان ہے۔(مدنی مذاکرہ، 8جمادی
الاولٰی)
(2)
مطالعہ سے اِتنا علم حاصل ہوگا، جس کی اِنتہا
نہیں۔( مدنی مذاکرہ، 1436)
علامہ
عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمۃ
اپنے شوقِ مطالعہ کے بارے میں فرماتے ہیں:"کہ
بسااوقات دورانِ مطالعہ بال یا عمامہ وغیرہ
چراغ کی آگ سے جھُلس جاتے، لیکن مطالعہ میں میں مشغولیت کے سبب سے انہیں پتا ہی
نہ چلتا۔" ( اخبارالحیا مع مکتوبات)
انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں:مطالعہ
کرنے سے انسان علم تو حاصل کرتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مطالعہ کی عادت صحت کے لئے بھی
فائدہ مند ہوتی ہے، مطالعہ کرنے والے شخص
کا قلب اور ذہن دونوں روشن ہوتے ہیں، ماہرین
کے مطابق کتاب پڑھنے کی عادت صحت پر اچھا
اثر ڈالتی ہے۔
مطالعہ کا دُرُست طریقہ:مطالعہ ایک
خوبصورت گُلشن کی مانند ہے، اِس میں خوشبو
بھی ہے، دل آویزی بھی ہے اور خاردار شاخیں
بھی ہیں، ایک طرف جہاں مطالعہ کی اہمیت مسلم اور اَفادیت قابلِ ذکر ہے، ساتھ ہی ساتھ اِس کے مواد میں اِنتہائی چاق وچوبندی ناگزیر ہے، اِس طرح اس کا طریقہ کار کی واقفیت بھی بہت ضروری
ہے، اس لئے کسی بھی کام کو اگر اُس کے
اُصول و ضوابط سے کیا جائےتو وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے، ورنہ نفع تو دَرکنار نقصان ضرور
ہاتھ آتا ہے۔
1۔سب
سے پہلے مطالعہ کے لئے اوقات کو تقسیم کرلیا جائے، یعنی جب ذہن خالی ہو تو خشک اور پیچیدہ مسائل
پر مبنی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور
جب ذہن الجھن اور خلش کا شکار ہو تو بہتر طور پر کام نہ کر ے تو سلیس اور
عام فہم کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تا کہ ان کی مشمولات و مندرجات ہمارے ذہن و دماغ کو معطرکر سکیں۔
2۔مطالعہ
کے دوران کوشش یہ ہونی چاہیے کہ شوروغل سے
پاک ماحول میں پورے اِنہما ک کے ساتھ
مطالعہ کیا جائے، توجّہ کو مبذول کرنے والی اَشیاء کو اپنے سے دور رکھا جائے یا بوقتِ مطالعہ خود ان اشیاء سے دور رہا جائے تا
کہ مطالعہ کے دوران کسی قسم کا خلل واقع نہ ہو اور جو کچھ ہم مطالعہ کریں، کسی طرح کی آواز اور آپس میں گفتگو کرنے والوں کی گفتگو پر دھیان نہ دیا جائے تا کہ
شوق واِنہماک میں کسی طرح کی کوئی disturbing نہ ہو۔
3۔ مفتی محمد قاسم عطاری فرماتے ہیں:
٭
بامقصد مطالعہ کیا جائے یعنی آپ مطالعہ پر غور کریں کہ میں کیوں کر رہا ہوں، کیا صرف وقت گزارنے کے لئے یا معلومات حاصل کرنے
کے لئے یا علم حاصل کرنے کے لئے اور یہ معلومات اور علم مُجھے فائدہ دے گاکہ نہیں، اِس اعتبار سے مطالعہ کریں،
جب با مقصد کا فلٹر لگا دیں گے تو بہت سارے مطالعے سائیڈ پر ہو جائیں گے اور آپ
مقصد پر آ جائیں گے۔
٭
تھوڑا تھوڑا پڑھیں اور بغور پڑھیں، آپ کو یاد
رہے گا، آپ بہت سارا پڑھیں اوربغور نہ پڑھیں وہ یاد نہیں رہے گا۔
٭
جب کوئی کتاب پڑھی جائے، اس کا طریقہ یہ
ہے کہ پہلے فہرست پڑھیں۔
٭
پھر کتاب کا سَرسَری مطالعہ کریں یعنی صفحات پَلٹ پَلٹ کر دیکھیں۔
٭اس
کے بعد توجّہ سے ایک ایک صفحہ پڑھیں۔
٭
آخر میں سَرسَری مطالعہ کرکے index دیکھیں،
اگر کوئیtopic سمجھ میں نہ آیا تو اسے دوبارہ پڑھیں۔
٭
جو پڑھا ہے اس کے مطابق بات چیت کریں، تبصرہ کریں، دوستوں
کے درمیان تکرار کریں تو جو پڑھا ہے، وہ یاد
رہے گا۔
حاصل مطالعہ :مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصلِ مطالعہ
کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے، علم و معلومات کی مثال ایک "شکاری" کی سی ہے، لہذا اسے فوراً قابو کرنا چاہئے۔
اِمام
شافعی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"علم ایک شکار کی مانند
ہے، کتابت کے ذریعے اسے قید کر لو۔"اس
لئے مطالعہ کے دوران قلم کاپی لے کر خاص خاص
باتوں کو نوٹ کرنے کا اِہتمام کرنا چاہئے، ورنہ بعد میں ایک چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ نہیں ملتی، اب یا تو سِرے سے بات ہی ذہن سے نکل جاتی ہے یا یاد تو رہتی ہے، مگر حوالہ ذہن سے نکل جاتا ہے، حاصلِ مطالعہ کے لئے دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے
جو کچھ پڑھا ہے، اس کے بارے میں کتنی
معلومات ذہن میں جمع ہوئیں، کتنے مسائل سے ہم روشناس ہوئے، اس کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اس کا سب سے عُمدہ
ذریعہ یہ ہے کہ اسے عملی زندگی میں داخل کیا جائے اور ذہن و دماغ میں موجود عمدہ
فکر و خیال کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اسے صفحہ قرطاس پر بھی رَقم کیا جائے، اگر مطالعہ کے ساتھ حاصلِ مطالعہ نہیں تو مطالعہ
بے سُود اور بے معنی ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے:
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب ِکتاب نہیں
کتاب
کو اِس طرح پڑھا جائے ، اِس کے مشمولات کو اِس طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ ایسا محسوس ہو کہ صاحبِ کتاب یعنی مصنف ہم ہی ہیں۔
اللہ ہمیں مطالعہ کُتب کی توفیق عطا
فرمائے اور اس کے بیش بہا مثبت فوائد
سے مستفیض فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
علم
و مطالعہ کا صحیح ذوق ایسی خدائی نعمت ہے، جو کم ہی خوش نصیبوں کو ملتا ہے، یہ ذوق انسان انسان کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے
علم وفہم میں روز بروز اضافہ کرے اور نِت نئے جواہر پاروں سے دامن طرف کو بھرتا جائے،
لیکن کبھی ایسا ہوتا ہےکہ انسان کو سمجھ
نہیں آتا کہ وہ کون سا طریقہ کار اختیار کرے
کہ مطالعہ مؤثر اور ثمر آور ہو، اس لئے مطالعہ کے چند مندرجہ ذیل مفید اورمبنی بر تجربہ
باتیں پیشِ خدمت ہیں، ممکن ہے کسی بندے کی
علمی ترقی کا زریعہ بن جائیں۔
پہلی بات:
اس سلسلے سے پہلی بات یہ ہے کہ آدمی کو کسی ایسے
خاص فن کا انتخاب کرنا چاہئے، جو اس کے ذوق
و طبیعت کے مطابق ہو اور ذہن قبول کرنے پر آمادہ ہو، ایک ہی وقت میں کئیں کئیں
فنون کی کتابیں پڑھنا مضامین کے اختصار میں خلل پیدا کرسکتا ہے، مثلاً آپ کا ذہن اگر ادبی ہے تو ادبیات کو اپنا موضوع بنائیے یا فقہی
ہے اورذہن مسائلِ فقیہہ کی جانب مائل ہے تو فقہیات کو اپنا موضوع بنائیے اور
اس پر مطالعہ کو اپنا موضوع بنائیے۔
دوسری بات:
دوسری
بات یہ ہے کہ اپنے علم و مطالعہ کاجائزہ لیجئے کہ جس فن کی جانب آپ کا ذہن مائل ہے،
اس کے بارے میں آپ کی معلومات کیا ہیں؟کیا
آپ اِس کی بنیادی باتوں سے واقف ہیں ؟یا آپ کا علم و مطالعہ متوسط ہے؟یا اس فن کی
اعلیٰ معلومات آپ کو درکار ہیں۔
تیسری بات:
تیسری
بات یہ ہے کہ مطالعہ کیسے کیا جائے؟مطالعہ کرنے کا دُرست طریقہ کیا ہے ؟یہ سوال نہایت
اَہم ہے اور درست ومفید علم کی بنیاد ہے، مطالعہ کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب ہاتھ میں لے کر
بالکل متوجّہ ہو کر، کسی ایسی جگہ پر بیٹھا
جائے جہاں تشویشِ ذہنی کا اندیشہ نہ ہو، کتاب کے ساتھ آپ کے داہنی جانب ایک عدد کاپی اور
ایک قلم بھی موجود ہو، اب ایک کام یہ کریں کہ اپنی کتاب کو ذہنی طور پر
مختلف حصّوں میں خواہ باب کے اعتبار سے، خواہ اوراق کے حساب سے تقسیم کر دیں، مثلاً آپ نے جس کتاب کا اِنتخاب کیا ہے اس میں دو سو صفحات ہیں، تو اِس کو بیس حصّوں میں تقسیم کر دیجئے
اور باری باری دس دس ورق پڑھتے جائیے، لیکن یہ خیال رہے! کہ دس صفحات کے بعد اگلے دس
صفحات اُس وقت تک آپ نہ پڑھیں جب تک آپ کو
ان دس صفحات پر مکمل یا بہت حد
تک دسترس حاصل نہ ہوجائے، آپ کوشش کریں کہ آپ کے پڑھے ہوئے
صفحات اس قدر آپ کے ذہن میں نقش ہو جائیں
کہ آپ اب دس صفحات کی تلخیص تقریر یا تحریر کے ذریعے کسی کے بھی سامنے رکھنے پر قادر ہوں، خواہ یہی دس صفحات
آپ کو بار بار پڑھنے پڑھیں۔
چوتھی بات:
چوتھی
بات یہ ہے کہ تیسری بات کو آسانی سے برتنے کے لئے آپ قلم اور کاپی کا سہارا لے سکتے ہیں، وہ اِس طرح کے دورانِ مطالعہ جو جو باتیں اہم ہوں یا آپ کے لئے نئی معلومات کا درجہ رکھتی ہوں، انہیں آپ پینسل سے نشانزد کر دیں یا اپنی کاپی پر اس کا اشاریہ لکھ
دیں اور اگر نہایت اہم ہو تو مستقل طور پر
کاپی میں نوٹ کر لیں۔
پانچویں بات:
پانچویں
بات یہ ہے کہ اس طرح مطالعہ کرنے سے اُکتاہٹ اور بے چینی پی بھی پیدا ہو سکتی ہے، مگر علم کی پیاس میں اسے گوارا کرنے کی کوشش اور گو ہرِ مصرفت سے دامنِ دل کو بھرنے کی فکر اِس بوجھ کو ہلکا کر
سکتی ہے، نیز اگر ایسی کیفیت پیدا ہو تو
آپ شروع شروع میں زیادہ نہ پڑھیں، بلکہ
جتنا طبیعت کو گوارا ہو اتنا پڑھ لیں یا طبیعت پر زور دے
کر دیکھیں، مگر گاہے بگاہے گشت بھی کر لیا
کریں یا چائے و کافی کے دو چار کش لے لیا کریں، نشاط برقرار رکھئے۔
لیکن
افسوس! کہ یہ خوبیاں اب ہمارے طلبہ میں
بہت کم پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے علم میں
وہ پُختگی نہیں ہوتی جو پرانے چراغوں میں
تھی اور جو طلبہ یہ طریقہ اپناتے ہیں، وہ
کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
ہمارے موضوع کا آخری عنصر مطالعہ کے تقاضے ہیں:
یہ
سب کو معلوم ہے کہ ہر چیز کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں ، جب تک ان تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے، اس چیز میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی، اس کے لئے آپ ایک کسان کی مثال لے سکتے ہیں، جب
تک وہ فصل کو زمین کے لئے ہموار نہیں کرے گا، بیج نہیں ڈالے گا، سینچائی نہیں
کرے گا، حسبِ ضرورت اس کے کھاد پانی کا انتظام نہیں کرے گا، ساتھ ہی محنت مشقت
برداشت نہیں کرے گا،
تو
فصل کٹائی کے وقت اس کے گھر دانا نہیں آئے
گا، جب دیگر کسانوں کے گھر اَناج سے بھرے ہوں گے، یہ بے چارہ کسان سوائے افسوس اور حسرت و ندامت کے کچھ نہیں کر سکتا بالکل ایسے ہی مطالعے کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں، جیسے کہ طلبہ درسی کتابوں کے پڑھنے میں دلچسپی
لیں، خوب محنت کریں، اپنے سبق کو توجّہ کے
ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے اور جس نے عزم کر لیا، اس کے لئے کوئی بھی راہ مشکل نہیں۔
مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا
بہترین آلہ ہے نیز کتب بینی بہتر اور کثیر معلومات حاصل کرنے کے اہم ذرائع میں
شمار کیا جاتا ہے، مُطالَعَہ کرتے رہنا چاہئے ،اس
طرح ذِہن کُھلتا ہے لیکن علمی
کمالات و استعداد اور علم میں ترقی کا راز بامقصد او ردرست طریقے سے مطالعہ کرنےمیں
مضمر ہے لہذا مندرجہ ذیل طریقے سے مطالعہ کرنا زیادہ برکتوں کے حصول کا ذریعہ بن
سکتا ہے ۔
(۱)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور حُصولِ ثواب کی نیَّت سے مُطالَعَہ
کیجئے۔
(۲)مُطالَعَہ
شروع کرنے سے قبل حمد و صلوٰۃ پڑھنے کی عادت بنایئے۔
(۳)مناسب وقت میں جبکہ ذہنی طور پر نشاط بھی ہو مطالعہ کیجئے ،صُبْح کے وقت مُطالَعہ کرنابَہُت مُفِید ہے کیونکہ عُمُوماًاِس وَقت
نیند کا غَلَبَہ نہیں ہوتا اورذِہن زیادہ
کام کرتا ہے ،اُونگھتے اُونگھتے پڑھنا غَلَط فَہمیوں میں ڈال سکتا ہے۔
(۴) جلد بازی یا ٹینشن (یعنی پریشانی)کی حالت
میں نہ پڑھیں ، ایسے وقت میں آپ کا ذہن کام نہیں کرے گا اور غلط فہمی کا اِمکان بڑھ جائے گا ۔
(۵) کسی بھی ایسے
انداز پر جس سے آنکھوں پر زور پڑے
مَثَلاً بَہُت مدھم یا زیادہ تیز روشنی میں یا چلتے چلتے یا چلتی گاڑی میں یا لیٹے لیٹے یا کتاب پر جُھک کر مُطالَعَہ
کرنا آنکھوں کے لیے مُضِر (یعنی نقصان دہ)ہے ، وقفے وقفے سے آنکھوں اور گردن کی ورزش کر لیجئے،کوشش کیجئے کہ روشنی اُوپر کی جانب سے آرہی ہو ، قبلہ رُو بیٹھئے،لیٹ کر مطالعہ نہ
کریں ۔
(۶) صرف آنکھوں سے نہیں زبان سے بھی پڑھئے کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے ۔
(۷) ایک بار کے مُطالَعے
سے سارا مضمون یاد رہ جانا بَہُت دُشوار ہے کہ فی زمانہ ہاضمے بھی کمزوراور حافِظے
بھی کمزور ! لہٰذا دینی کتب ورسائل کا بار بارمُطالَعَہ کیجئے ۔
(۸) جو
بھلائی کی باتیں پڑھی ہیں ثواب کی نیّت سے دوسروں کو بتاتے رہئے ، اس طرح اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کو یاد ہو
جائیں گی۔[علم و حکمت ۱۲۵ مدنی پھول ۷۰-۷۴ملتقطا]
(۹) بامقصد مطالعہ کریں ،یہ غور کریں کہ جو کچھ پڑھ رہا ہوں اسے
پڑھ کرمجھے علم و عمل کےاعتبار سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔
(۱۰)زیادہ بھوک اور زیادہ سیری کی حالت میں نہ پڑھیں ۔
(۱۱) دوران ِمطالعہ بلاضرورت بات چیت نہ کریں ۔
(۱۲)پہلے طبعی حاجت اور دیگر ضروری کاموں سے فراغت حاصل کرلیں
تاکہ توجہ،دل جمعی سے مطالعہ ہوسکے۔
(۱۳)کتاب کو اولاً اجمالی نظر سے دیکھ لیں پھر گہری نظر سے مطالعہ
کریں ۔
(۱۴)مطالعہ کے وقت کاغذ وقلم اپنے ساتھ رکھیں جو نئی اور اہم بات معلوم ہو اسے نوٹ
کریں ۔
(۱۵)اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے اہلِ علم سے معلوم کرنے میں عار
محسوس نہ کریں کہ یہ عار علم کی ترقی میں
رکاوٹ ہے۔
مطالعہ کرنے
کے کچھ آداب ہیں کہ جب آپ مطالعہ کریں تو سب سے پہلے یہ سوچ لیں کہ میں مطالعہ کیوں
کر رہا ہوں کہ اس کا کوئی مقصد بھی ہے یا
ویسے ٹائم پاس کر رہا ہوں جب آپ یہ سوچیں
گے کہ میں مطالعہ علم حاصل کرنے کے لیے کر
رہا ہوں یا کوئی معلومات حاصل کرنے کےلئے
مطالعہ کر رہا ہوں کہ مجھے اس فائدہ ا بھی حاصل ہو گا جب آپ یہ سوچیں گے کہ میں نے کوئی مقصد حاصل کرنا ہے تو آپ بامقصد مطالعہ کریں بے
مقصد یعنی فضول مطالعہ کرنا چھوڑ دیں مثلاً ایسا مطالعہ جس سے آپ کو کوئی فائدہ ہی نہیں ملے گا تو اس مطالعہ کو چھوڑ دیں گے تو آپ اپنی مقصدیت پہ آ جائیں گے ایک تو یہ
بات نوٹ فرما لیں اب دوسری بات جو ہے کہ جب بھی آپ مطالعہ کرنے بیٹھیں کہ اتنی آپ کو بھوک نہ نہ لگی ہو اور نہ پیٹ بھر
کر کھانا کھائیں کیونکہ ساری توجہ اس طرف
چلی جائے گی اگر پانی پینا ہے تو پانی پی لیں واشروم کی حاجت ہے تو اس سے فارغ ہو
کہ بیٹھے شور والی جگہ سے ہٹ کے بیٹھیں کہ توجہ ادھر چلی جائے اور مطالعہ کرنے کا
وقت وہ رکھیں جس میں آپ کا جسم دماغ وغیرہ تروتازہ ہوتا ہے تو اس وقت آپ کی توجہ
باقی رہتی ہے جب ان چیزوں کو مدنظر رکھیئں گے تو آپ کا مطالعہ بہت ہی اچھے انداز میں
ہو گااور جس کتاب کا مطالعہ کرنے کیلئے بیٹھ گے ہیں تو اس کتاب میں سب سے پہلے فہرست پڑھ لیں اب
سارے چیپٹروں کا سرسری مطالعہ کر لیں اس کے بعد پوری کتاب کو مکمل پڑھ لیں پھر آخر
میں فہرست دیکھیں کہ اس میں کون سی بات ہے جو مجھے سمجھ نی آی اب اس کو جا کہ دوبار پڑھ لیں اور جو خاص خاص باتیں ہوتی ہیں
ان کو اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیں یا اس پر نشان لگا دیں جب آپ کا اس طرح مطالعہ ہو
گا کہ جسے آپ نے پوری کتاب کو نچوڑ کر
اپنے اندر ڈال دیا اور یہ سب سے اچھا طریقہ ہے مطالعہ کرنے کا ۔
علم
دین ایک پیش بہا قیمتی خزانہ ہے، جب علم کو مال کے تقابل میں رکھا جاتا ہے تو مال
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان کو مال
کی حفاظت کرنا پڑتی ہے، جبکہ علم ایسا بہترین خزانہ ہے جو انسان کی حفاظت کرتا ہے،
علم حاصل کرنے کے مختلف ذرائع ہیں، جن میں سے ایک ذریعہ مطالعہ کرنا بھی ہے، جس طرح ہر چیز کا ایک مقام ہوتا ہے، کہ وہ شے اپنے مقام میں اچھی لگتی ہے، اِسی طرح ہر کام کا الگ طریقہ ہوتا ہے، اہل ِعلم نے مطالعہ کرنے کا طریقہ بیان فرمایا
ہے:
چنانچہ
اِبتداء میں تسمیّہ پڑھ لیں، کیونکہ
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم
نے ارشاد فرمایا:" جو بھی اَہم کام بسم
اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع نہیں کیا جاتا وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔"
(الدر المنثور، ج1، ص26، فیضان بسم اللہ، مکتبۃ المدینہ)
٭پھر
حمدو صلوۃ پڑھیں کیونکہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہے:"جس
نیک کام سے قبل اللہ پاک کی
حمد اور مجھ پر درود نہ پڑھا گیا، اس میں
برکت نہیں ہوتی۔"
٭مطالعہ
رضائے الہی عزوجل کی اور حصولِ
ثواب کے لیے ہو۔
٭ شور و
غُل سے دور پر سکون جگہ ہو۔
٭ ذہن
حاضر اور طبیعت تروتازہ ہو۔
٭ہاتھ
میں قلم ضرور ہو تاکہ اہم بات تحریر میں لائی جا ئے، مشکل الفاظ کے معانی جاننے
والے سے پوچھ لیں۔
٭ آنکھوں
پر زور پڑنے والے انداز میں مطالعہ نہ
فرمائیں۔
٭صبح کے
وقت، مغرب کے بعد، سحر(سحری)کے وقت مطالعہ کرنا زیادہ مفید ہے، کیونکہ اس وقت ذہن
تروتازہ ہوتا ہے۔
٭ جلد
بازی اور پریشانی کی حالت میں مطالعہ نہ فرمائیں، کیونکہ ذہن دیگر سوچوں یا کاموں میں مصروف ہونے
کی وجہ سے صحیح کام نہیں کرتا ا ور آپ ہاں
کو نہ اور نہ کو ہاں سمجھ بیٹھیں گے۔
٭ روشنی
اُوپر کی جانب سے متوسط ہو، نہ زیادہ تیز
کہ آنکھوں پر اثر پڑے گا اور نہ ہی کم ہو۔
٭دورانِ
مطالعہ آنکھیں زیادہ دیر بھی نہ جمائیں، دورانِ مطالعہ آنکھوں اور گردن کی
ورزش (ادھر اُدھرگھُمانے)کا اہتمام بھی کریں۔
٭الفاظ
صرف نظروں سے مت گزاریں بلکہ زبان سے بھی
پڑھیں، تا کہ سماعت کی وجہ سے الفاظ دماغ میں اچھی طرح بیٹھ جائیں۔
٭بات
سمجھ نہ آنے کی صورت میں فَسْـئـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ
اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)۔(پارہ
14، سورۂ نحل آیت نمبر43)اہلِ علم سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے، پر عمل کرتے
ہوئے اساتذہ یا مفتی صاحب وغیرہ سے رُجوع فرمائیں۔
٭تکرار
کا بھی اہتمام کریں اور اچھی بات دوسروں کو بھی سنائیں۔
( علم و حکمت کے125 مدنی پھول مع اضافہ، ص72 سے 76، مکتبۃ المدینہ)
اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔اٰمین
یہ
ایک حقیقت ہے کہ مطالعہ کی عادت انسان کے لئے زندگی کی تمام مشکلات اور غم و فکر
سے دور ایک محفوظ پناہ گاہ تعمیر کر دیتی ہے، مطالعہ کے لئے سازگار ماحول کا ہونا بہت ضروری
ہے ، درج ذیل طریقوں پر عمل کرکے ہم مفید انداز میں مطالعہ کرنے میں کامیاب ہو
سکتے ہیں:
1۔
سب سے پہلے اور اہم بات یہ ہے کہ اللہ عزوجل
کی رضا اور حصولِ ثواب کے لیے مطالعہ کیا جائے اور شروع کرنے سے قبل حمدو صلوۃ پڑھنے کی عادت ہے بنائی جائے۔
2۔سنت
پر عمل کرتے ہوئے کہ قبلہ رو بیٹھ کر مطالعہ کیجئے، اِس کے فوائد آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
3۔
صبح کے وقت مطالعہ کرنا بے حد مفید ہے کیونکہ عموماً اس وقت نیند کا غلبہ نہیں
ہوتا اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے۔
4۔
شور و غُل سے دور پر سکون جگہ پر بیٹھ کر
مطالعہ کیجیئے۔
5۔مطالعہ
کرنے کے وقت ذہن حاضر اور طبیعت تروتازہ ہونی چاہئے۔
6۔
صرف آنکھوں سے نہیں زبان سے مطالعہ کیجئے کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے۔
7۔
اگر جلد بازی یا ٹینشن(یعنی پریشانی) کی حالت میں پڑھیں گے مثلاً کوئی آپ کو پُکار
رہا ہے اور آپ پڑھے جا رہے ہیں، یا استنجاء
کی حاجت ہے اور آپ مسلسل مطالعہ کئے جا
رہے ہیں، تو ایسے وقت میں آپ کا ذہن کام
نہیں کرے گا اور غلط فہمی کا امکان بڑھ جائے گا۔
8۔کسی
بھی ایسے انداز پر کہ جس سے آنکھوں پر زور
پڑے، مثلاً مدھم یا تیز روشنی میں، یا چلتے چلتے یا چلتی گاڑی میں یا لیٹے لیٹے یا
کتاب پر جھک کر مطالعہ کرنا آنکھوں کے لئے مُضر یعنی نقصان دہ ہے۔
9۔
کوشش کیجئے کہ روشنی اُوپر کی جانب سے آ رہی ہو، پچھلی طرف سے آنے میں بھی حرج نہیں مگر سامنے سے آنا نقصان دہ ہے۔
10۔
مُشکل الفاظ پر بھی نشان لگا لیجئے اور کسی جاننے والے سے پوچھ لیجئے۔
11۔
تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آنکھوں اور گردن کی ورزش کر لیجئے، کیونکہ کافی دیر تک مسلسل ایک ہی جگہ دیکھتے
رہنے سے آنکھیں تھک جاتی ہیں اور بعض اوقات گردن میں بھی درد ہو جاتا ہے۔
12۔
آخری اور اہم بات یہ ہے کہ ایک بار کے مطالعہ سے سارا مضمون یاد رہ جانا بہت دُشوار ہے کہ فی زمانہ حافظے بھی کمزور ہیں اور ہاضمے بھی، لہذا دینی کتب کا بار بار مطالعہ کیجئے۔
ہر کام کو درست طریقے سے سر انجام دینے کے
کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں اگر انہیں ان اصولوں کے مطابق کیا جائے تو اس کام کے
حقیقی ثمرات حاصل ہوتے ہیں ، ورنہ بعض اوقات تو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
کچھ اسی طرح کا معاملہ مطالعہ کا بھی ہے،
ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ہے جو مطالعہ نہیں کرتی، پھر جو کرتے ہیں ان میں
سے بھی بڑی تعداد مطالعہ کے درست طریقہ سے
ناآشنا ہے ، آئیے مطالعہ کرنے کے چند اصول جانتے ہیں ۔
مطالعہ شروع کرنے سے پہلے کی کچھ ضروری
گزارشات :
1 :سب سے پہلے تمام ضروری حاجات سے فارغ ہو
لیں تاکہ دل ودماغ ان میں مشغول نہ رہیں
2 : با
وضو، قبلہ رو ہو کر بیٹھیں، بسم اللہ شریف ، درود شریف اور دعائیں پڑھ لیں ۔
3 :مطالعہ شروع کرنے سے پہلے اچھی اچھی
نیّتیں کر لیں،كيونكہ جتنی اچھی نیّتیں زیادہ ہوں گی اتنا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
دوران مطالعہ چند ضروری ہدایات :
1 : بہت
زیادہ یا بہت کم روشنی میں نہ پڑھیں نیز ایسے انداز اور زاویۂ نگاہ سے بچیں جس سے
آنکھوں پر دباؤ پڑے ۔
2 : خوب توجہ اور یکسوئی سے مطالعہ کریں،
ناسازگار ماحول مثلاً شوروغل والی جگہ مطالعہ اکثر سود مندثابت ثابت نہیں ہوتا ۔
3 ۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کتاب سے نظریں ہٹا
کر کسی دور کی چیز کو تقریباً 20 سیکنڈ تک دیکھیں اس سے آنکھوں کو راحت و آرام ملے
گا یوں ہی 45 سے 50 منٹ سے زیادہ مسلسل
مطالعہ نہ کریں بلکہ 5منٹ چہل قدمی کرلیں۔
4 ۔ اپنے پاس قلم، ہائی لائیٹر اور نوٹ بک
رکھیں تاکہ دورانِ مطالعہ اہم نکات کو نوٹ کیا جا سکے، یہ نکات آپ کو بیان وتحریر
کے ساتھ ساتھ اور بہت سی جگہوں پر کام آئیں گے۔
بعد
مطالعہ ذہن نشین رکھنے والی باتیں:
جو کچھ مطالعہ کیا اس کی بقا کا ایک طریقہ
یہ ہے کہ اس کو دوسروں تک پہنچائیں.
جو نکات لکھے ہیں ان کو وقتاً فوقتاً
دہراتے رہیں.
مطالعہ میں کی جانے والی چند غلطیاں:
بہت سے لوگ ساری کتاب پڑھ لیتے ہیں مگر
مقدمہ، ابتدائیہ یا پیش لفظ نہیں پڑھتے حالانکہ مقدمہ میں مصنف کتاب لکھنے کے
اسباب، موضوع کے حوالے سے بنیادی معلومات اور بہت سی اہم باتیں لکھتے ہے.
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں مصنف
کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا مگر کتاب پوری پڑھ لیتے ہیں مصنف کے حالات بھی پڑھنے
چاہیے.
کچھ لوگ ہر ایرے غیرے کی کتاب پڑھ ڈالتے
ہیں جبکہ بد مذہبوں کی کتابیں پڑھنا ناجائز و حرام ہے لہذا ہمیں ہمیشہ علماء
اہلسنت کی کتب کا ہی مطالعہ کرنا چاہیے.
مطالعے کا درست طریقہ سیکھنے کا ایک ذریعہ
مطالعہ کرنے کا تجربہ ہونا بھی ہے،اور یہ تجربہ حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ
امیر اہلسنت کی طرف سے ہر ہفتے کو ملنے والے رسالے کا مطالعہ کیا جائے اللہ نے
چاہا تو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا