تمام
تعریفیں ربِّ لم یزل کے لئے
جس نے انسان کو عِلم کے حُصول کا حکم دیا،
اس کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اپنا سب سے پہلا پیغام اِنسانیّت کے نام بھی یہی
بھیجا اور اِرشاد فرمایا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) ترجمہ
کنزالایمان :"پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا
کیا۔ ( العلق: 1)
مطالعہ
عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی "غور و فکر اور توجّہ و دھیان" کے ہیں، کسی چیز
کو جاننے اور اِس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے اُسے دیکھنا، پَرکھنا، سمجھنا، کسی تحریر یا کتاب کو غور سے پڑھنا
اور اُستاد سے سبق پڑھنے سے پیشتر طالب علموں کا سبق کے معنٰی مطلب پر غور کرنا
اور عبارت کے معنٰی و مفہوم کو سمجھنا"
مطالعہ" کہلاتا ہےاور عُرفِ عام میں مطالعہ کا اِطلاق کتب بینی اور کتاب کی وَرق گردانی پر بھی ہوتا ہے، اِس طرح مطالعہ کا مفہوم یہ ہوا کہ" آدمی
کتابوں کو پڑھ کر اُن کے مضامین اپنے ذہن و دماغ میں اُتارے اور ان کی مشمولات کو
ہضم کرے۔
مطالعہ اصولِ علمِ دین کا ذریعہ ہے:اعلٰی
حضرت ، عظیم المرتبت، مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"علم
کتابوں کے مطالعہ سے اور علماء سے سُن سُن کر بھی حاصل ہوتا ہے ۔" ( تلخیص اَز احکامِ شریعت)
امیر
اہلِ سُنت مولانا ابو بلال الیاس قادری رضوی د امت برکا تھم العالیہ فرماتے
ہیں:
(1)
مطالعہ علمِ دین کی جان ہے۔(مدنی مذاکرہ، 8جمادی
الاولٰی)
(2)
مطالعہ سے اِتنا علم حاصل ہوگا، جس کی اِنتہا
نہیں۔( مدنی مذاکرہ، 1436)
علامہ
عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمۃ
اپنے شوقِ مطالعہ کے بارے میں فرماتے ہیں:"کہ
بسااوقات دورانِ مطالعہ بال یا عمامہ وغیرہ
چراغ کی آگ سے جھُلس جاتے، لیکن مطالعہ میں میں مشغولیت کے سبب سے انہیں پتا ہی
نہ چلتا۔" ( اخبارالحیا مع مکتوبات)
انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں:مطالعہ
کرنے سے انسان علم تو حاصل کرتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مطالعہ کی عادت صحت کے لئے بھی
فائدہ مند ہوتی ہے، مطالعہ کرنے والے شخص
کا قلب اور ذہن دونوں روشن ہوتے ہیں، ماہرین
کے مطابق کتاب پڑھنے کی عادت صحت پر اچھا
اثر ڈالتی ہے۔
مطالعہ کا دُرُست طریقہ:مطالعہ ایک
خوبصورت گُلشن کی مانند ہے، اِس میں خوشبو
بھی ہے، دل آویزی بھی ہے اور خاردار شاخیں
بھی ہیں، ایک طرف جہاں مطالعہ کی اہمیت مسلم اور اَفادیت قابلِ ذکر ہے، ساتھ ہی ساتھ اِس کے مواد میں اِنتہائی چاق وچوبندی ناگزیر ہے، اِس طرح اس کا طریقہ کار کی واقفیت بھی بہت ضروری
ہے، اس لئے کسی بھی کام کو اگر اُس کے
اُصول و ضوابط سے کیا جائےتو وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے، ورنہ نفع تو دَرکنار نقصان ضرور
ہاتھ آتا ہے۔
1۔سب
سے پہلے مطالعہ کے لئے اوقات کو تقسیم کرلیا جائے، یعنی جب ذہن خالی ہو تو خشک اور پیچیدہ مسائل
پر مبنی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور
جب ذہن الجھن اور خلش کا شکار ہو تو بہتر طور پر کام نہ کر ے تو سلیس اور
عام فہم کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تا کہ ان کی مشمولات و مندرجات ہمارے ذہن و دماغ کو معطرکر سکیں۔
2۔مطالعہ
کے دوران کوشش یہ ہونی چاہیے کہ شوروغل سے
پاک ماحول میں پورے اِنہما ک کے ساتھ
مطالعہ کیا جائے، توجّہ کو مبذول کرنے والی اَشیاء کو اپنے سے دور رکھا جائے یا بوقتِ مطالعہ خود ان اشیاء سے دور رہا جائے تا
کہ مطالعہ کے دوران کسی قسم کا خلل واقع نہ ہو اور جو کچھ ہم مطالعہ کریں، کسی طرح کی آواز اور آپس میں گفتگو کرنے والوں کی گفتگو پر دھیان نہ دیا جائے تا کہ
شوق واِنہماک میں کسی طرح کی کوئی disturbing نہ ہو۔
3۔ مفتی محمد قاسم عطاری فرماتے ہیں:
٭
بامقصد مطالعہ کیا جائے یعنی آپ مطالعہ پر غور کریں کہ میں کیوں کر رہا ہوں، کیا صرف وقت گزارنے کے لئے یا معلومات حاصل کرنے
کے لئے یا علم حاصل کرنے کے لئے اور یہ معلومات اور علم مُجھے فائدہ دے گاکہ نہیں، اِس اعتبار سے مطالعہ کریں،
جب با مقصد کا فلٹر لگا دیں گے تو بہت سارے مطالعے سائیڈ پر ہو جائیں گے اور آپ
مقصد پر آ جائیں گے۔
٭
تھوڑا تھوڑا پڑھیں اور بغور پڑھیں، آپ کو یاد
رہے گا، آپ بہت سارا پڑھیں اوربغور نہ پڑھیں وہ یاد نہیں رہے گا۔
٭
جب کوئی کتاب پڑھی جائے، اس کا طریقہ یہ
ہے کہ پہلے فہرست پڑھیں۔
٭
پھر کتاب کا سَرسَری مطالعہ کریں یعنی صفحات پَلٹ پَلٹ کر دیکھیں۔
٭اس
کے بعد توجّہ سے ایک ایک صفحہ پڑھیں۔
٭
آخر میں سَرسَری مطالعہ کرکے index دیکھیں،
اگر کوئیtopic سمجھ میں نہ آیا تو اسے دوبارہ پڑھیں۔
٭
جو پڑھا ہے اس کے مطابق بات چیت کریں، تبصرہ کریں، دوستوں
کے درمیان تکرار کریں تو جو پڑھا ہے، وہ یاد
رہے گا۔
حاصل مطالعہ :مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصلِ مطالعہ
کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے، علم و معلومات کی مثال ایک "شکاری" کی سی ہے، لہذا اسے فوراً قابو کرنا چاہئے۔
اِمام
شافعی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"علم ایک شکار کی مانند
ہے، کتابت کے ذریعے اسے قید کر لو۔"اس
لئے مطالعہ کے دوران قلم کاپی لے کر خاص خاص
باتوں کو نوٹ کرنے کا اِہتمام کرنا چاہئے، ورنہ بعد میں ایک چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ نہیں ملتی، اب یا تو سِرے سے بات ہی ذہن سے نکل جاتی ہے یا یاد تو رہتی ہے، مگر حوالہ ذہن سے نکل جاتا ہے، حاصلِ مطالعہ کے لئے دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے
جو کچھ پڑھا ہے، اس کے بارے میں کتنی
معلومات ذہن میں جمع ہوئیں، کتنے مسائل سے ہم روشناس ہوئے، اس کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اس کا سب سے عُمدہ
ذریعہ یہ ہے کہ اسے عملی زندگی میں داخل کیا جائے اور ذہن و دماغ میں موجود عمدہ
فکر و خیال کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اسے صفحہ قرطاس پر بھی رَقم کیا جائے، اگر مطالعہ کے ساتھ حاصلِ مطالعہ نہیں تو مطالعہ
بے سُود اور بے معنی ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے:
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب ِکتاب نہیں
کتاب
کو اِس طرح پڑھا جائے ، اِس کے مشمولات کو اِس طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ ایسا محسوس ہو کہ صاحبِ کتاب یعنی مصنف ہم ہی ہیں۔
اللہ ہمیں مطالعہ کُتب کی توفیق عطا
فرمائے اور اس کے بیش بہا مثبت فوائد
سے مستفیض فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم