علم
و مطالعہ کا صحیح ذوق ایسی خدائی نعمت ہے، جو کم ہی خوش نصیبوں کو ملتا ہے، یہ ذوق انسان انسان کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے
علم وفہم میں روز بروز اضافہ کرے اور نِت نئے جواہر پاروں سے دامن طرف کو بھرتا جائے،
لیکن کبھی ایسا ہوتا ہےکہ انسان کو سمجھ
نہیں آتا کہ وہ کون سا طریقہ کار اختیار کرے
کہ مطالعہ مؤثر اور ثمر آور ہو، اس لئے مطالعہ کے چند مندرجہ ذیل مفید اورمبنی بر تجربہ
باتیں پیشِ خدمت ہیں، ممکن ہے کسی بندے کی
علمی ترقی کا زریعہ بن جائیں۔
پہلی بات:
اس سلسلے سے پہلی بات یہ ہے کہ آدمی کو کسی ایسے
خاص فن کا انتخاب کرنا چاہئے، جو اس کے ذوق
و طبیعت کے مطابق ہو اور ذہن قبول کرنے پر آمادہ ہو، ایک ہی وقت میں کئیں کئیں
فنون کی کتابیں پڑھنا مضامین کے اختصار میں خلل پیدا کرسکتا ہے، مثلاً آپ کا ذہن اگر ادبی ہے تو ادبیات کو اپنا موضوع بنائیے یا فقہی
ہے اورذہن مسائلِ فقیہہ کی جانب مائل ہے تو فقہیات کو اپنا موضوع بنائیے اور
اس پر مطالعہ کو اپنا موضوع بنائیے۔
دوسری بات:
دوسری
بات یہ ہے کہ اپنے علم و مطالعہ کاجائزہ لیجئے کہ جس فن کی جانب آپ کا ذہن مائل ہے،
اس کے بارے میں آپ کی معلومات کیا ہیں؟کیا
آپ اِس کی بنیادی باتوں سے واقف ہیں ؟یا آپ کا علم و مطالعہ متوسط ہے؟یا اس فن کی
اعلیٰ معلومات آپ کو درکار ہیں۔
تیسری بات:
تیسری
بات یہ ہے کہ مطالعہ کیسے کیا جائے؟مطالعہ کرنے کا دُرست طریقہ کیا ہے ؟یہ سوال نہایت
اَہم ہے اور درست ومفید علم کی بنیاد ہے، مطالعہ کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب ہاتھ میں لے کر
بالکل متوجّہ ہو کر، کسی ایسی جگہ پر بیٹھا
جائے جہاں تشویشِ ذہنی کا اندیشہ نہ ہو، کتاب کے ساتھ آپ کے داہنی جانب ایک عدد کاپی اور
ایک قلم بھی موجود ہو، اب ایک کام یہ کریں کہ اپنی کتاب کو ذہنی طور پر
مختلف حصّوں میں خواہ باب کے اعتبار سے، خواہ اوراق کے حساب سے تقسیم کر دیں، مثلاً آپ نے جس کتاب کا اِنتخاب کیا ہے اس میں دو سو صفحات ہیں، تو اِس کو بیس حصّوں میں تقسیم کر دیجئے
اور باری باری دس دس ورق پڑھتے جائیے، لیکن یہ خیال رہے! کہ دس صفحات کے بعد اگلے دس
صفحات اُس وقت تک آپ نہ پڑھیں جب تک آپ کو
ان دس صفحات پر مکمل یا بہت حد
تک دسترس حاصل نہ ہوجائے، آپ کوشش کریں کہ آپ کے پڑھے ہوئے
صفحات اس قدر آپ کے ذہن میں نقش ہو جائیں
کہ آپ اب دس صفحات کی تلخیص تقریر یا تحریر کے ذریعے کسی کے بھی سامنے رکھنے پر قادر ہوں، خواہ یہی دس صفحات
آپ کو بار بار پڑھنے پڑھیں۔
چوتھی بات:
چوتھی
بات یہ ہے کہ تیسری بات کو آسانی سے برتنے کے لئے آپ قلم اور کاپی کا سہارا لے سکتے ہیں، وہ اِس طرح کے دورانِ مطالعہ جو جو باتیں اہم ہوں یا آپ کے لئے نئی معلومات کا درجہ رکھتی ہوں، انہیں آپ پینسل سے نشانزد کر دیں یا اپنی کاپی پر اس کا اشاریہ لکھ
دیں اور اگر نہایت اہم ہو تو مستقل طور پر
کاپی میں نوٹ کر لیں۔
پانچویں بات:
پانچویں
بات یہ ہے کہ اس طرح مطالعہ کرنے سے اُکتاہٹ اور بے چینی پی بھی پیدا ہو سکتی ہے، مگر علم کی پیاس میں اسے گوارا کرنے کی کوشش اور گو ہرِ مصرفت سے دامنِ دل کو بھرنے کی فکر اِس بوجھ کو ہلکا کر
سکتی ہے، نیز اگر ایسی کیفیت پیدا ہو تو
آپ شروع شروع میں زیادہ نہ پڑھیں، بلکہ
جتنا طبیعت کو گوارا ہو اتنا پڑھ لیں یا طبیعت پر زور دے
کر دیکھیں، مگر گاہے بگاہے گشت بھی کر لیا
کریں یا چائے و کافی کے دو چار کش لے لیا کریں، نشاط برقرار رکھئے۔
لیکن
افسوس! کہ یہ خوبیاں اب ہمارے طلبہ میں
بہت کم پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے علم میں
وہ پُختگی نہیں ہوتی جو پرانے چراغوں میں
تھی اور جو طلبہ یہ طریقہ اپناتے ہیں، وہ
کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
ہمارے موضوع کا آخری عنصر مطالعہ کے تقاضے ہیں:
یہ
سب کو معلوم ہے کہ ہر چیز کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں ، جب تک ان تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے، اس چیز میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی، اس کے لئے آپ ایک کسان کی مثال لے سکتے ہیں، جب
تک وہ فصل کو زمین کے لئے ہموار نہیں کرے گا، بیج نہیں ڈالے گا، سینچائی نہیں
کرے گا، حسبِ ضرورت اس کے کھاد پانی کا انتظام نہیں کرے گا، ساتھ ہی محنت مشقت
برداشت نہیں کرے گا،
تو
فصل کٹائی کے وقت اس کے گھر دانا نہیں آئے
گا، جب دیگر کسانوں کے گھر اَناج سے بھرے ہوں گے، یہ بے چارہ کسان سوائے افسوس اور حسرت و ندامت کے کچھ نہیں کر سکتا بالکل ایسے ہی مطالعے کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں، جیسے کہ طلبہ درسی کتابوں کے پڑھنے میں دلچسپی
لیں، خوب محنت کریں، اپنے سبق کو توجّہ کے
ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے اور جس نے عزم کر لیا، اس کے لئے کوئی بھی راہ مشکل نہیں۔