غور وتدبر کے میدان میں ہر دوسرا دماغ اس خلفشار کا شکار ہے کہ مطالعہ کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟یہ سوال ہر اس شخص کے ذہن میں آتا ہے جو تحریر و تقریر کے شعبہ سے دلچسپی رکھتا ہے ۔ مطالعہ کے بغیر لکھنے میں نکھار آتا ہے نہ تقریر میں سنوار، اس ضمن میں اگر کوئی محقق و مفکر ان تین چیزوں کو ملحوظ رکھے تو وہ مطالعہ کے میدان میں کافی حد تک کامیاب ہو سکتا ہے۔

۱۔مطالعہ کتنا ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔؟

۲۔مطالعہ کس طرح ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔؟

۳۔مطالعہ کتنی دیر اور کب تک ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔؟

۱۔مطالعہ کتنا ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔؟

مطالعہ ہمیشہ ذوق کا محتاج ہوتا ہے۔اگر ذوق پیدا ہو جائے تو نہ دماغ تکھتا ہے اور نہ ہی دل بھرتا ہے۔اگر مطالعہ کا ذوق و شوق ہو تو اچھی کتاب سے لے کر کاغذ کی اس پڑیا تک جس میں آدمی ہلدی مرچ لے کر آتا ہے سبھی کو ایک نظر دیکھنے کا جی چاہتا ہے اگر ذوق نہ ہو تو سامنے پڑی کتاب کو دیکھتے ہی اباسی آنے لگتی ہے یا تو پھر تھکن محسوس ہونے لگتی ہے اور سر بوجھل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اب کس طرح پتا چلے کہ ہمارے اندر ذوق مطالعہ ہے بھی یا نہیں،تو جلدی جلدی اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا جس مسجد میں میں روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنے جاتا ہوں اس کے داخلی دروازہ اور دیواروں پر کنندہ فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے یاد ہیں؟،کیا اس ماہنامہ فیضان مدینہ۔جو کہ ابھی میرے ہاتھ میں ہے ۔اسے کھولنے سے پہلے میں نے اس کی رنگین سرخیوں میں موجود فرمان امیر اہلسنت پڑھا؟ یا فہرست کھنگال کر فقط اپنے مزاج کے متعلق مضمون کھولا۔کیونکہ اس پر کچھ بھی فضول نہیں لکھا ہوا! اسی طرح کاغذ کا ہر ٹکڑا ایک نظر کا محتاج ہوتا ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر اس طرح ہے تو پھر ہمارے اندر ذوق مطالعہ ہی نہیں جو کہ بنیاد ہے۔

ذوق مطالعہ کیلئے ہرگز یہ دلیل نہیں کہ آراستہ و چمکدار کمرہ ہو،چمک دار جلد کی کتابیں ہوں،چار رنگی طباعت ہو،صاف شفاف میز ہو اور آگے پیچھے جھولتی ہوئی کرسی ہو، جنہیں قدرت نے ذوق مطالعہ سے نوازا ہے وہ گلی میں لگے بلب کی روشنی اور اصطبل میں گھوڑوں کے ہنہنانے کے شور کی موجودگی میں بھی اپنی تسکین کر لیتے ہیں جنہیں مطالعہ سے وحشت ہوتی ہے وہ طویل و عریض آرام گاہ میں موجود قیمتی فانوس سے بھی استفادہ نہیں کر پاتے۔

۲۔مطالعہ کس طرح کا ہو نا چاہیاس کا جواب ہے"وسعت مطالعہ"موضوع اور کتاب کا مرحلہ بہت دیر بعد آتا ہے۔پہلے پہل مختصر رسائل وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے جیسا کہ مکتبہ المدینہ کے ہفتہ وار رسائل، اس کے بعد مرحلہ وار ٹھوس تحقیقی مواد۔ پھر ایک مدت کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا کتاب دیکھ کر سارا متن و مفہوم سمجھ جاتا ہے۔ابتدائی دور میں رکنے یا بس کرنے کی کوئ قید نہیں رکھنی چاہئے۔ مطالعہ میں وسعت آئے گی تو ہی انتخاب کی نوبت آئے گے۔ درجنوں کتابوں میں سے ایک آدھ مواد ہی ذہن میں اترتا ہے جیسا کہ دستر خوان پر موجود مختلف کھانوں میں سے فقط ایک دو کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے اگر کھانا ہی ایک ہو تو انتخاب کیسا؟

۳۔مطالعہ کتنی دیر اور کب تک ہونا چاہیئے۔۔

عمر بھر! وہ شخص کبھی عالم نہیں ہو سکتا جو زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اپنے آپ کو عالم و کامل سمجھ کر مطالعہ ترک کر دے۔ہمارے معاشرے میں اکثر نام نہاد علامہ کہلانے والے جب مسندوممبر پر چند جملے ادا کرتے ہیں تو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ وہ علامہ کتنے ہیں اور الاہمہ کس قدر! ایک سچا عالم کبھی بھی مطالعہ سے جی نہیں چراتا وہ بستر مرگ پر بھی کتاب سے مستغنی نہیں ہوتا،کھانے پینے اور آکسیجن سے کہیں زیادہ اس کے لئے مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ اہل ذوق اس بات سے با خوبی آگاہ ہونگے کہ مطالعہ کے دوران وقت کے گزرنے،بھوک اور پیاس کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔بہر حال کوئ ہلدی کی گانٹھ ملنے پر پنسار ہونے کا تو دعویٰ کر سکتاہے لیکن کوئپ درجن ڈیڑھ کتابیں اور سال چھ مہینے مطالعہ کرکے اچھا ادیب اور اچھا خطیب نہیں بن سکتا اس بات کو اس طرح سمجھئیے کہ امام غزالی ۳۷ اڑتیس سال کی عمر میں جامعہ نظامیہ بغداد کے وائس چانسلر کے عہدے سے الگ ہو کر غور و فکر اور مطالعے کے شوق میں شہر سے نکل گئے، دس سال بعد واپس ہوئے اور۵۵ پچپن سال کی عمر میں وفات پائی۔درمیانی سات سال میں قلم اٹھایا اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کیلئے پرعزم ہو گئے اور پھر اہل جہاں نے دیکھا کہ اپکی نوکِ قلم سے "تہافت الفلاسفہ"،"المنقد الضلال"،"کیمیائے سعادت"اور احیاءالعلوم جیسی کتابیں نکلیں جنہوں نے فلاسفئہ یونان کا بھیجا ہلا دیا،گویا امام غزالی جیسی شخصیت بھی مطالعے کی محتاج اور حق

کی آرزو مند ہے۔

میرا جو اسلامی بھائی یہ چاہتا ہے کہ اس کے قلم میں ذائقہ اور زبان میں رونق آجائے تو اسے چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے۔جس سے اسے رب ذوالجلال حق و باطل میں تمیز،جھوٹ و سچ میں امتیاز،اعلٰی و ادنٰی میں فرق اور معیاری و بازاری کتابوں میں حدِفاصل قائم کرنے کی قوت عطا فرمائے گا۔