کسی بھی کام کو اس کے اصول و ضوابط کے تحت  کیا جائے تو وہ کارآمد و مفید ثابت ہوتا ہے ورنہ نفع درکنار نقصان ضرور ہوتا ہے۔

یہی معاملہ مطالعہ کا ہے کہ جہاں ایک طرف اپنے موضوع اور کتب کا انتخاب ضروری ہے تو دوسری طرف انہیں پڑھنے کے طریقوں اور اصولوں سے بھی کسی قدر واقفیت لازمی ہے، یہاں ہم بعض ایسی چیزیں بیان کریں گے کہ اگر انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے مطالعہ کیا جائے تو ضرو راس کے خاطر خواہ فوائد و منافع حاصل ہوں گے۔

کتاب اور نصاب کی تعین :

یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ انسان اپنے مطلوبہ موضوع پر ساری کتابیں نہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی پڑھ سکتا ہے اور پڑھنی بھی نہیں چاہیے حسبِ ضرورت معین اور مستند کتابوں کو پڑھ کر علمی صلاحیت کو پختہ کرنا یہ کافی ہے، جس طرح کتاب کی تعیین مطالعے کو آسان بناتی ہے اسی طرح نصاب کی تعیین بھی مطالعے کو آسان بناتی ہے، اب کتابوں کا نصاب زائد کتابوں سے بھی بنتا ہے اور مخصوص چند کتابوں سے بھی بنتا ہے، اگر نصاب ایک ہی کتاب یا چند مخصوص مستند کتابوں کا حصہ بھی ہو تو یہ بھی علوم و فنون کی ابحاث سے استفادہ کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔

وقت اور جگہ کی تعین :

بہترین طریقے سے مطالعہ کے لیے وقت اور جگہ کا تعین ہونا بھی ضروری ہے، مطالعے کے لیے ایسی جگہ کا تعین کیا جائے جہاں شورو غل نہ ہو اور ایسی بلند آوازیں جیسے ریڈیو، ٹی وی ، اسپیکرز وغیرہ یا کام کاج کر نے والوں کی شور مچاتی آوازیں بھی نہ ہوں جو آپ کے مطالعے میں خلل کا باعث بن رہی ہو۔جگہ کے ساتھ ساتھ وقت کا تعین ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ مطالعے کے لیے (Timetable)بنانے اور وقت خاص کرنے سے وقت کی کمی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکا ہے۔

ایک مشہور مقولہ ہے، توزیع الوقت تو سیع الوقت یعنی وقت کی درست تقسیم کاری وقت کو وسیع کردیتی ہے۔

کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں مطالعہ زیادہ مفید ہوتا ہے جیسے صبح کا وقت کیونکہ عام طور پر اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن بھی زیادہ کام کرتا ہے، صبح کے نشاط ( فرحت) سے بھرپور اوقات میں زیادہ تر ایسی کتب کا مطالعہ کیا جائے جو گہرے غور و فکر کی متقاضی ہوں۔

ذہنی انہماک اور یکسوئی کا لحاظ (Concentration)توجہ کے ساتھ مطالعہ کرنا:

مطالعے کو طویل عرصے تک ذہن میں محفوظ رکھنے کے لیے مطالعہ ذہنی انہماک طبیعت کی ترو تازگی اور یکسوئی کے ساتھ کرنا نہایت ضروری ہے، دوران مطالعہ دل کا حزن، ملال، نیند کاغلبہ شکم سیری Tension جلد بازی،بے رغبتی بے توجہی بھوک پیاس کی شدت تھکاوٹ اور دیگر الجھنیں بھی یکسوئی کو متاثر کرتی ہیں، الغرض ہر وہ چیز جو ذہنی یکسوئی اور باریک بینی و توجہ کے ساتھ مطالعہ کرنے کے منافی ہو ان سب سے الگ و فراغت کے بعد ہی مطالعہ اچھی طرح ذہن نشین ہوسکے گا۔

روحانی آداب کا اہتمام:

مطالعے کو مفید بنانے کے لیے کچھ روحانی آداب بھی ہیں اگر ان کا اہتمام کیا جائے تو سکونِ قلب اور راحتِ جسمانی کا سامان ہوگابعض روحانی آداب درج ذیل ہیں۔

۱۔ مطالعہ شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ شریف او ر درود پاک پڑھ لیں تاکہ خیر و برکت شامل ہوجائے۔

۲۔ بوقتِ مطالعہ قبلہ رو بیٹھنا یہ بھی ایک مستحسن عمل ہے۔

۳۔ مطالعے سے حاصل شدہ خیر و بھلائی والی باتیں دوسروں تک پہنچائی جائیں اس سے نہ صرف مطالعہ کرنے والے کو یاد رہے گا بلکہ نیکی عام کرنے کا ثواب بھی پائے گا۔

۴۔ مطالعے سے قبل وضو نیز موسم گرما میں غسل ٹھنڈک بھی کیا جاسکتا ہے،

امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

پھر اس کی تائید تمام فقہائے کرام کے اس اطلاق سے ملتی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: وضو اور غسل ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کرنا حالانکہ ٹھنڈک حاصل کرنا کبھی اس غرض سے بھی ہوتا ہے کہ انسان عبادت میں پرسکون رہے، یا مطالعہ اطمینان سے کرسکے اور بلاشبہ اس صورت میں یہ عبادت ہوگا، کیونکہ ہر مباح جائز کام جو انسان خیر کی نیت سے کرے خیر ہے۔

(فتویٰ رضویہ ج۲، ص ۶۰)

آلاتِ علم کا ادب :آلاتِ علم سے مراد کتاب ، قلم روشنائی کاپی اور دوات

(Inkpot) وغیرہ ہیں کہ مطالعہ کرنے والے کو ان اشیا کا ادب اور طریقہ استعمال بھی آنا چاہیے۔ بے ادبی کے ساتھ اگرچہ علم حاصل ہو بھی جائے مگر بندہ علم کے فیوض و برکات اور حلاوت و فوائد سے محروم رہتا ہے،شیخ امام برہان الدین علیہ الرحمہ اپنے مشائخ میں سے ایک بزرگ کی حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک فقیر کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر رکھ دیا کرتے تھے تو شیخ نے ان سے فارسی میں فرمایا۔ برنیابی، یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔( تعلیم المتعلم طریق التعلم مترجم ص ۶۰)

یونہی کتاب کو زمین پر رکھ دینا اس کا تکیہ بنانا اس کی طرف پاؤں کرنا وغیرہ بھی بے ادبی ہے، جتنا ادب زیادہ اتنا ہی فائدہ بھی زیادہ حاصل ہوگا۔

مثال مشہور ہے، باادب باانصیب بے ادب بے نصیب