1۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مرنے کے بعد انسان کے
اعمال کے ثواب کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب میت کو ملتا رہتا
ہے۔
(1) صدقہ جاریہ
(2) لوگوں کو فائدہ دینے والا علم
(3) نیک اولاد جو میت کے لئے دعا کرے۔‘‘
(مسلم شریف: کتاب الوصیۃ،
باب: ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ: حدیث :1361)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو مرنے کے
بعد ان اعمال اور نیکیوں کا ثواب ملتا رہتا ہے:(1) وہ علم ہے جو اس نے لوگوں کو
سکھایا اور پھیلایا۔(2) نیک اولاد ہے جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑی۔(3) قرآن کی تعلیم
جو لوگوں کو سکھائی۔(4) مسجد جو تعمیر کرائی۔(5) مسافر خانہ۔(6) وہ صدقہ جو صحت کی
حالت میں اس نے نکالا۔
(ابن ماجہ:
مقدمۃ، باب: ثواب معلم الناس الخیر: حدیث نمبر 242)
2۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
سیّدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ماں کی
نذر کے بارے میں سوال کیا جسے پورا کرنے سے پہلے وہ فوت ہو گئی تھی۔ آپ نے
فرمایا:"اپنی ماں کی طرف سے تم نذر پوری کرو۔"
(بخاری شریف: الوصایا، باب:ما یستحب لمن توفیٰ فجاۃ ۔حدیث :1672،
مسلم شریف: النذر: حدیث نمبر8361)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ
کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ
میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی کیا میں اس کی
طرف سے حج کروں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! اس کی طرف سے حج کرو، اگر تمہاری والدہ پر
قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتیں؟‘‘ اس نے عرض کیا ہاں! آپ نے فرمایا:’’اللہ کا قرض
یعنی نذر ادا کرو، اللہ پاک زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘(بخاری
شریف: جزاء العید، باب: الحج والنذور عن المیت: حدیث نمبر 2581)
3۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے باقی
ہوں تو اس کا وارث روزے رکھے۔‘‘
(بخاری شریف: کتاب الصوم، باب: من مات وعلیہ صوم: 2591،
مسلم شریف: کتاب الصیام، قضاء الصیام عن الموت: حدیث نمبر7411)
اس روایت کے تحت عمدۃ
القاری میں ہے :”حجۃ اصحابنا الحنفیۃ ومن تبعھم فی ھذا الباب فی ان مات وعلیہ صیام لایصوم عنہ
احد ولکنہ ان اوصی بہ اطعم ولیہ کل یوم مسکین نصف صاع من براوصاعامن تمراوشعیر“ یعنی ہمارے حنفی اصحاب اور ان کے
متبعین کی اس باب میں یہ دلیل ہے کہ جو شخص مرجائے اوراس کے ذمے روزے ہوں، توکوئی
اوراس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا،لیکن اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو،تو میت کا
ولی ہردن کے بدلے مسکین کو نصف صاع گندم یاایک صاع کھجوریاجَودے گا۔
(عمدۃ
القاری ،11/59،مطبوعہ بیروت)
4۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے کچھ
مال چھوڑا ہے لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا یہ
اس کے گناہوں کا کفارہ بنے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں!۔‘‘
(مسلم شریف: کتاب الوصیۃ، باب: وصول ثواب
الصدقات الی المیت: حدیث نمبر 361)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص
(سیدنا سعد بن عبادہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ماں
اچانک مر گئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو کچھ صدقہ وخیرات کرتی، اب
اگر میں اس کی طرف خیرات کروں تو کیا اس کو کچھ ثواب ملے گا، آپ نے فرمایا:
’’ہاں!۔‘‘(بخاری شریف : کتاب الجنائز، باب: موت الفجاۃ البغتۃ: حدیث نمبر 8831،
مسلم: الزکاۃ، باب: وصول ثواب الصدقۃ الی المیت: حدیث نمبر4001)
5۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’مومن کی روح قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے جب تک وہ
ادا نہ کر دیا جائے۔‘‘
(ترمذی شریف:
کتاب الجنائز: حدیث نمبر7801)