پارہ 28،  سورۂ حشر کی آیت نمبر 10 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ جو ان کے بعد آئے،عرض کرتے ہیں،اے ہمارے ربّ ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔

مشہور مفسرِ قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہاں سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ صرف اپنے لئے دعا نہ کرے، بزرگوں کے لئے بھی کرے۔دوسرا یہ کہ بزرگانِ دین(رحمۃ اللہ علیہم) خصوصاً صحابۂ کرام و اہلِ بیت علیہم الرضوانکے عُرس، ختم و نیاز فاتحہ وغیرہ یہ اعلیٰ چیزیں ہیں کہ ان میں بزرگوں کے لئے دعا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:ایک شخص آیا اور کہنے لگا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے اور وہ کسی بات کی وصیت نہ کرسکیں،میرا گمان ہے کہ انتقال کے وقت اگر انہیں کچھ کہنے سننے کا موقع ملتا تو ضرور صدقہ دیتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر وں تو کیا ان کی روح کو ثواب پہنچے گا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہاں پہنچے گا۔

ایصالِ ثواب کے لئے دل میں نیت کر لینا کافی ہے، مثلاً ایک روپیہ میری طرف سے صدقہ یا دُرود پاک پڑھا یا کسی کو ایک سنت بتائی، کسی پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے نیکی کی دعوت دی،الغرض کوئی بھی نیک کام کیا،آپ دل ہی دل میں اس طرح نیت کر لیں، مثلاً ابھی میں نے جو سنت بتائی ہے، اس کا ثواب سرکار علیہ السلام کو پہنچے،ان شآءاللہ ثواب وہاں پہنچ جائے گا،مزید جن جن کی نیت کریں گی، ان کو بھی پہنچ جائے گا، دل میں نیت ہونے کے ساتھ ساتھ زبان سے کہہ لینا بھی اچھا ہے کہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کنواں کھُدوا کر فرمایا:ہٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدْ یہ اُمِّ سعد کے لئے ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے جو فاتحہ کا طریقہ مذکور ہے، وہ یہ ہے کہ آپ فاتحہ سے قبل یہ سورتیں پڑھتے تھے:ایک بار سورۂ فاتحہ، ایک بار آیۃ الکرسی اور تین بار سورۂ اخلاص ۔

فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جو قبرستان میں گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل ختم ہو جاتے ہیں، مگر تین چیزیں کہ مرنے کے بعد ان کے ثواب اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں:1۔صدقۂ جاریہ مثلاً مسجد بنا دی یا مدرسہ بنایا تو ثواب برابر ملتا رہے گا۔2۔وہ علم جس سے اُس کے مرنے کے بعد لوگوں کو نفع پہنچتا رہے۔3۔نیک اولاد چھوڑ جائے، جو مرنے کے بعد اپنے والدین کے لئے دعا کرتی رہے۔( مسلم ، 3/1255)

کھانے کے علاوہ آپ مدرسے میں پڑھنے والے کسی بچے کا سالانہ خرچ دے دیں، مثلاًایصالِ ثواب میں بیس ہزار خرچ ہو سکتے ہیں تو آپ یہ بیس ہزار روپے مدرسے کے چار بچوں کے اخراجات کی مد میں دے دیں، ایک بچے پرپانچ ہزار روپے خرچ ہوں گے، یہ رقم ان کے سالانہ خرچ اور کتابوں کے لئے کافی ہوجائےگی،آپ کے اس عمل سے میّت کو بہت فائدہ ہوگا اور جب تک وہ بچے دینی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے میت کو بھی ثواب پہنچتا رہے گا۔غریب گھرانوں میں لڑکیوں کی شادی پیسوں کی وجہ سے نہیں ہوپاتی،ایصالِ ثواب کے نام پر کسی غریب بچی کی شادی کا خرچہ اُٹھا لیں،یہ بہت اچھا ایصالِ ثواب ہے،نیز لڑکی کے گھر والے خرچہ اُٹھانے والے کو زندگی بھر دعائیں بھی دیں گے ۔