مدینے کے تاجدار صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت
نشان ہے:میری اُمت گناہ سمیت قبر میں داخل ہوگی اور جب وہ نکلے گی تو بے گناہ ہوگی،کیونکہ
وہ مؤمنین کی دعاؤں سے بخش دی جاتی ہے۔( مدنی پنج سورہ ، بحوالہ معجم اوسط، 1/ 509، حدیث: 1879)
سرکارِ نامدار صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ مشکبار
ہے:مُردے کا حال قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی
دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اس کو پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیاومافیہاسے
بہتر ہوتی ہے ۔اللہ پاک قبر والوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتا ہے،زندوں
کا ہدیہ یعنی تحفہ مُردوں کیلئے دعائے
مغفرت کرنا ہے۔( مدنی
پنج سورہ، بحوالہ شعب الایمان، 4/ 203)
ان احادیثِ مبارکہ سے ایصالِ ثواب کی اہمیت و فضائل کا اندازہ ہوا کہ فوت شُدگان
کو ایصالِ ثواب کرنا دُرست، جائز بلکہ بہت زیادہ ثواب کا کام ہوا، اس کی برکت سے میّت کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں اور خود ایصالِ ثواب کرنے والا
بھی محروم نہیں رہتا ۔
مجمع الزوائدمیں ہے:جو کوئی تمام مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعائے مغفرت کرے،اللہ
پاک اس کیلئے ہر مومن مرد و عورت کے عوض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/ 352، حدیث: 17598)
ذیل میں ایصالِ
ثواب کے پانچ طریقے بیان کئے جارہے ہیں:
فرض،واجب،سنت،نفل،نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج،بیان، تلاوتِ قرآنِ پاک،اوراد و ظائف ذکر
و اذکار،دینی کتب کا مطالعہ، نیکی کی دعوت
الغرض ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کر سکتی ہیں۔
1۔ایصالِ
ثواب کیلئے مسجد یا مدرسے کا قیام ایک بہترین عمل ہے اور ایصالِ ثواب کا بہترین ذریعہ
ہے۔
2۔فقراکو کھانا
کھلانا بھی ایصالِ ثواب کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
3۔اسی طرح
میّت کا تیجہ، دسواں اور چالیسواں اور برسی
کرنا بھی اچھا ہے کہ یہ ایصالِ ثواب کے ہی ذرائع ہیں۔
٭تیجے وغیرہ
کا کھانا صرف اسی صورت میں میّت کے چھوڑے ہوئے مال سے کر سکتی ہیں، جبکہ سارے وُرثا بالغ ہوں اور سب کے سب اجازت دیں، اگر ایک بھی وارث نابالغ ہے تو نہیں کرسکتے (نابالغ اجازت دے تب بھی نہیں کر سکتے) ، ہاں! بالغ اپنے
حصّے سے کر سکتا ہے۔
٭ تیجے کا
کھانا مالدار نہ کھائیں، صرف فقرا کو کھلایا
جائے ۔
٭بزرگوں کی
فاتحہ کے کھانے کو تعظیماً نذرونیاز کہتے ہیں، یہ نیاز تبرک ہے، اسے سب کھا سکتی ہیں۔
4۔پانی کا
صدقہ
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میری ماں انتقال کر گئی ہیں، میں ان
کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں،کونسا صدقہ افضل رہے گا؟ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:پانی۔ چنانچہ انہوں نے ایک
کنواں کُھدوایااور کہا:یہ اُمِّ سعد کے لئے ہے۔( ابو داؤد، 4/ 18)
فوت شدگان کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا بھی ایصالِ ثواب کا ایک بہترین طریقہ ہے ۔فرمانِ
مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو اپنے ماں یا باپ کی طرف سے حج کرے، ان کی (یعنی ماں باپ کی ) طرف سے حج ادا ہوجائے گا، اسے یعنی حج کرنے والے کو مزید دس حج کا ثواب
ملے گا، اسی طرح ایصال ثواب کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں، جس طرح نوافل کا ایصالِ ثواب کرسکتی ہیں،محافل و
ذکر ونعت، درو دِپاک، صدقہ و
خیرات کا بھی ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے ۔اللہ
پاک ہمیں تمام مسلمانوں کو ایصالِ ثواب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الکریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم