وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ہے: اس آیت میں متقین کے 3 اوصاف بیان ہوئے ہیں: غصہ پینے والے، معاف کرنے والے اور احسان کرنا۔

احادیث مبارکہ:

جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہیں کہ جو اس پر ظلم کرے اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلقی کرے اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ کہ ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوئے پھر دوسری بار اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ پر ہے منادی کہے گا ان کا جو لوگوں کی خطائیں معاف کرنے والے ہیں پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ کریم کے ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)

واقعہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور حضور ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے یک دم ایک بدوی (دیہاتی) نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ محبوب رب ذوالجلال ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کی کنارے سے خراش آگئی وہ کہنے لگا اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرما دیجئے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے اور کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)

دیکھا آپ نے مدنی آقا ﷺ نے بدوی سے کیسا حسن سلوک فرمایا میٹھی مصطفی ﷺ کے دیوانوں خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے دکھائے آپ عفو در گزر سے کام لیجئے اور اس کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنے کی کوشش فرمائیں۔

ایک شخص بارگاہ مصطفوی ﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں ؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر وہ سوال دہرایا حضور نے خاموشی اختیار فرمائی جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔(ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)

مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ عربی میں 70 کا لفظ زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن میں اسے بہت دفعہ معافی دو یہ صورت میں ہو کہ غلام سے خطا غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا ملکی قصور نہ ہو کہ یہ معاف نہیں کیے جاتے۔ (مراۃ المناجیح، 5/170)

اقوال بزرگان دین:

1۔ ابن عمر فرماتے ہیں: مروت والوں کو سزا نہ دو جب کہ وہ صالح ہو۔

2۔ اسی بات پر دنیا قائم ہے کہ کوئی اپنے سے بد سلوکی کرنے والے کو معاف کر دے۔

3۔ غلطی کرنے والے کی لغزش کو معاف کرو جب تک وہ کسی حد شرعی کا سزاوار نہ ہو۔

4۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

5۔ جس پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر کرے اللہ کریم اس کی عزت بلند فرما دیتا ہے۔

6۔ حضور ﷺ فرمایا کرتے جس کا خلاصہ ہے کہ معاف کیا کرو اللہ کریم معاف کرنے والوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

کاش ہمارے اندر بھی یہ جذبہ بیدار ہو جائے کہ ہم اپنی ذات اور نفس کی خاطر غصہ کرنا ہی چھوڑ دیں جیسے کہ ہمارا بزرگوں کا جذبہ ہوتا تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اس ظلم پر بھی شفقت فرماتے، حیات اعلی حضرت میں ہے کہ میرے آقا حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مغلطات سے بھرپور تھے معتقدین برہم (غصہ) ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کروائیں گے اعلی حضرت نے فرمایا جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیر تقسیم کر دو پھر گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ دائر کرواؤ۔ مطلب یہ ہے کہ تعریف کرنے والوں کو تو انعام نہیں دیتے پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں! سبحان اللہ کتنا پیارا اور کریمانہ انداز ہے اللہ کریم فیضان اعلی حضرت سے ہمیں بھی مالا مال فرمائے۔

فضائل و فوائد:

عفو درگزر سے کام کرنے والے کو اللہ کریم پسند فرماتا ہے۔

عفو در گزر کر نا سنت مصطفی ﷺ ہے۔

معاف کرنے والا اللہ کریم کے اجر کا حقدار ہے۔

معاف کرنے والے کو جنت نصیب ہوگی۔

جو خدا کی رضا کے لیے معاف کرتا ہے رب کائنات اسے خود بلندی عطا فرما دیتا ہے۔

عفو درگزر اختیار کرنا متقین کا اوصاف میں سے ہے۔

بزرگان دین معاف کرنے کی خصلت سے مشرف تھے۔

حضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن تمام کفار کو معاف فرما دیا تھا۔

اللہ مجھے اور آپ کو معاف کرنے والا بنا دے اللہ ہم تمام کو عفودر گزر کا پیکر بنائے اپنے حبیب ﷺ کے طفیل۔ آمین