عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی معاف کرنا بخش دینا  اور بدلہ نہ لینا ہے۔ خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

معزز کون؟ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے عرض کی: اے رب! تیرے نزدیک کون سا بندہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کرے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

معاف کرو معافی پاؤ: سرکار مدینہ منورہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)

مدنی آقا ﷺ عفو و درگزر: ہند بنت عتبہ جو حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چباگئی تھیں فتح مکہ کے دن نقاب پوش ہو کر اسلام لائیں تاکہ حضور ﷺ نہ پہچان سکیں بیعت کے موقع پر بھی گستاخی سے باز نہ رہیں ایمان لا کر نقاب اٹھا دیا اور کہا میں ہند بنت عتبہ ہوں مگر حضور ﷺ نے کسی امر کا ذکر نہیں کیا یہ دیکھ کر ہندہ نے کہا: یارسول اللہ روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ میری نگاہ میں آپکے اہل خیمہ سے مبغوض نہ تھے لیکن آج میری نگاہ میں روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ آپ کے اہل خیمہ سے محبوب نہیں رہے۔ (سیرت رسول عربی، ص 303)

ایک اور واقعہ ملاحظ فرمائیے، چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے 80 مرد کوہ تنعیم ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کو غافل پائیں آپ نے ان کو لڑائی کے بغیر پکڑ لیا اور زندہ رکھا ایک روایت میں ہے ان کو چھوڑ دیا پس اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی: ترجمہ: اور خدا وہ ہے جس نے مکہ کے نواح میں ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے باز رکھا (سیرت رسول عربی، ص 301)

امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے سرتاج صاحب معراج نہ تو عادتًا بری باتیں کرتے تھے اور نہ بے تکلفًا اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔(ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)

حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ سلطان دوجہان ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کے اس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

عکرمہ بن ابی جہل قریشی اپنے باپ کی طرح رسول اللہ ﷺ کے سخت دشمن تھے فتح مکہ کے دن وہ بھاگ کر یمن چلے گئے ان کی بیوی جو مسلمان ہو چکی تھی وہاں پہنچی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب سے بڑھ کر صلہ رحم اور احسان کرنے والے ہیں غرض وہ عکرمہ کو بارگاہ رسالت میں لائی عکرمہ نے آپ کو سلام کیا رسول اللہ ﷺ ان کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور ایسی جلدی سے ان کی طرف بڑھے کہ ان کی چادر مبارک گر پڑی اور فرمایا: ہجرت کرنے والے سوار کو آنا مبارک ہو۔ (سیرت رسول عربی، ص 304)

گالیاں دیتا ہے کوئی تو دعا دیتے ہیں

دشمن آجائے تو چادر بھی بچھا دیتے ہیں

روزانہ ستّر 70 بار معاف کرو: ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر وہ سوال دہرایا: پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : عربی میں (ستّر) کا لفظ بیان کی زیادتی کے لیئے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قومی و ملکی نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔