عفو کے معروف معنی معاف کرنا، درگزر کرنا،نظر انداز کرنااور انتقام نہ لینا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے۔ وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پ 1، البقرۃ: 109) ترجمہ: پس تم معاف کردو اور درگزر سے کام لو۔

دشمنوں سے بھی عفودرگزر کا حکم: عفودرگزر کا حکم صرف مسلمانوں اور اپنوں سے ہی نہیں بلکہ دشمنوں، کافروں اور مشرکوں کو بھی معاف کر دینے کا حکم ہے۔ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰهِ لِیَجْزِیَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) (پ 25، الجاثیۃ: 14) ترجمہ: (اے پیغمبرﷺ)جو لوگ ایمان لے آتے ہیں ان سے کہو کہ جو لوگ اللہﷻ کے دنوں کا اندیشہ نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں تاکہ اللہ لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ دے جو وہ کیا کرتے تھے۔

نواسئہ رسول اور عفو: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا۔ ایک دن وہ وضو کے لیے پانی لایا۔ جب آپ وضو کر چکے اور غلام نے لوٹا اٹھایا تو اتفاق سے لوٹا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے منہ سے جا ٹکرایا۔جس سے آپ کے ایک دانت کو تکلیف پہنچی۔ اپنے غلام کی طرف غصے سے دیکھا تو غلام نے فوراً یہ آیت پڑھی:

غلام: اور غصہ پی جانے والے۔

حسین: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔

غلام: لوگوں کو معاف کرنے والے۔

حسین: میں نے تجھے معاف کیا۔

غلام: اور اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

حسین: تم آزاد ہو، جاسکتے ہو۔

جنت کا محل: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ: سلطان دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں)محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں، اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر دے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔(مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

ظلم کرنے والے کے لیے دعاو ہدایت: غزوہ احد میں جب مدینے کے سلطانﷺکے مبارک دندان شہید اور چہرہ انور کو زخمی کر دیا گیا مگرآپﷺنے ان لوگوں کے لیے اس کے سوا کچھ بھی نہ فرمایا کہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔

سویاکئے نابکار بندے

رویا کئے زار زار آقا

فتح مکہ کے موقع پر صحن کعبہ میں قریش مکہ کا اجتماع تھا یہ وہ لوگ تھے جو آپ ﷺکے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے۔ انہوں نے کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا اور آپﷺ اور مسلمانوں کو اتنی اذیتیں پہنچائی تھیں کہ انھیں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا پڑی۔ اب یہ لوگ خوف و دہشت کی تصویر بنے ہوئے تھے اور ڈر رہے تھے کہ نہ جانے اب ان سے کتنا شدید انتقام لیا جائے گا۔

حضرت محمدﷺ نے ان کی طرف توجہ کی اور فرمایا: اے گروہ قریش!تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کرنے والا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا آپ نیکی کا برتاؤ کریں گے۔کیونکہ آپ خود مہربان ہیں اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺنے قرآن مجیدکی یہ آیت پڑھی: قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) (پ 13، یوسف:92) ترجمہ: کچھ الزام نہیں تم پرآج بخشے اللہ تم کو اوروہ ہے سب مہربانوں کا مہربان۔