آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خلق خدا سے کیا
پوچھنا ؟ جب کہ خود خالق اخلاق نے یہ فرما دیا کہ وَ
اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ: یعنی
اے حبیب ! بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر ہیں۔
آپ کے بڑے سے بڑے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ
آپ بہت ہی بلند اخلاق، نرم خو اور رحیم و کریم ہیں۔ آپ کے اخلاق میں ایک آپ کی
عادت کریمہ یہ بھی تھی کہ آپ معاف کرنا اختیار فرماتے اس کے متعلق آپ کے فرمان بھی
سنتی ہیں کہ آپ کا اپنا عمل تو یہ تھا کہ آپ عفو و درگزر سے کام لیتے لیکن آپ نے
اپنی امت کو عفو و درگزر کے متعلق کیا ارشاد فرمایا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سلطان
دو جہاںﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں
اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا
کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 3/12، حدیث:3215)
آپ ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم
نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی
بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع(عاجزی)
کرے اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم
نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اس کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام
احمد، 7/71،
حدیث:1926)
سرکار مدینہ منورہ، سردار مکہ مکرمہ ﷺ کا
فرمان عالیشان ہے: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو
اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام
احمد، 2/682، حدیث: 7062)
ہم نے خطا میں نہ کی، تم نے عطا میں نہ
کی
کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو
جائے۔ پوچھا جائے گا: کس کیلئے اجر ہے؟ وہ منادی (اعلان کرنے والا) کہے گا ان لوگوں کا جو معاف کرنے والے ہیں، تو
ہزاروں آدمی کھڑے ہونگے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،
حدیث: 1998)