کسی کی خطا کو معاف کر دینا عفو اور اس پر کوئی مواخذہ نہ کرنا درگزر کہلاتا ہے۔ عفو و درگزر سے کام لینا یہ خوبی اخلاقی اوصاف میں سے ہے اچھے اخلاق کا تقاضا ہے کہ بندہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرتے ہوئے درگزر سے کام لے۔ پیاری پیاری اسلامی بہنو! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے آپ کا دل دکھائے آپ عفو و درگزر ہی سے کام لیجیے اور ان کے ساتھ محبت بھرا سلوک فرمائیے۔

قرآن کریم میں عفو و درگزر اختیار کرنے کاحکم: اللہ پاک نے قرآن مجید میں عفو و درگزر کرنے والوں کو اپنی رضا کی جو خوشخبریاں سنائیں اس ضمن میں دو آیات پڑھیے:

وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں پہلے تو متقین کے چار اوصاف بیان کے گئے: خوشحالی و تنگی دونوں میں راہ خدا میں مال خرچ کرنا، غصہ پی جانا، معاف کرنا اور درگزر کرنا۔ پھر اللہ پاک نے خود ہی فرما دیا کہ یہ اوصاف جس میں ہوں تو الله نیکوں سے محبت فرماتا ہے۔

اور (ثواب ان کے لیےبھی) جو بچتے رہتے ہیں بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی سے اور جب غضبناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کچھ یوں ہے کہ کسی پر غصہ آجانے پرمعاف کردینے کی صورت میں بھی اجر و ثواب کی بشارت ہے۔ حضرت علامہ احمد صاوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: آیت کا معنی ہے کہ جب غصہ آئے تو اس وقت درگزر کرنا اخلاقی اچھائیوں میں سے ہے مگر شرط یہ ہے کہ درگزر کرنے سے کسی واجب میں خلل نہ ہو اگر کسی فرض یا واجب میں خلل واقع ہو تو درگزر نہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔

عفو و درگزر احادیث کی روشنی میں: اصلاح امت کی غرض سے نبی پاکﷺ نے معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بھی کئی مرتبہ تاکید فرمائی آپ بھی ان میں سے چند پڑھ کر عفو و درگزر کا ذہن بنائیے:

(1) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحیم و کریم آقاﷺ نے فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اسکے درجات کو بلند کیا جائے تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کردے جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے جو اس سے قطع تعلقی کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

(2)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے فرمایا: جب لوگ حساب گے لیے ٹھہرے ہونگے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا کہ جسکا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمّہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور داخل جنت ہو جائے جب دوسری بار بھی یہی اعلان کرے گا تو پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جسکا اجر اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر ہے منادی کہےگا کہ انکا جو لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے ہیں پھر وہ اپنا اعلان تیسری بار دہرائے گا تو ہزاروں آدمی کھڑے ہونگے اور بلا حساب داخل جنت ہو جائیں گے۔(معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)

عفو و درگزر کے معاملے میں اصحاب مصطفیٰ ﷺ کا طرز عمل: عفو ودرگزر کے معاملے میں پیارے اصحاب ہمارے اسلاف اور اہل بیت اطہار کی بھی کئی روایات ہیں جن میں سے ایک آپ بھی پڑھیے اور جھوم جائیے چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے آپ پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھوں سے برتن گرا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مبارک چہرے پر آگرا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ بھی زخمی ہو گیا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اسکی طرف دیکھا تو اسنے عرض کی اللہ فرماتا ہے: اور غصہ پینے والے آپ نے اس سے فرمایا میں نے اپنے غصہ کو پی لیا اس نے پھر عرض کی: اور لوگوں کو معاف کرنے والے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے اس نے دوبارہ عرض کی اس بار آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا جا ! تو الله کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 41/387)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے چہرہ زخمی ہو جانے کے باوجود کس طرح اس لونڈی کو معاف بھی کیا اور درگزر سے کام لیا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی خدا اور خدا کے پیارے حبیب ﷺ کے حکم پر عمل کی نیت سے عفو و درگزر سے کام لیں غصہ آئے تو صبر صبر اور صرف صبر ہی سے کام لیجیے کہ بسا اوقات نہ بول کر غمزدہ ہونا بول کر پچھتانے سے بہتر ہوتا ہے۔ کسی کو جھڑک دینے یا بدلہ لینے سے محض نفرتیں پیدا ہونگی جبکہ عفو و درگزر کرنے سے آپس میں محبتیں بڑھیں گی۔