عفو و درگزر از بنت محمد اعجاز جمالی، جامعۃ
المدینہ فیض مدینہ نارتھ کراچی
عفو کا معنی یہ ہے کہ آدمی اپنا حق چھوڑ دے اور
بالکل بری الذمہ ہو جائے مثلا قصاص یا تاوان وغیرہ نہ لے عفو کا معنی معاف کرنے
بردباری اور غصہ پی جانے کے علاوہ ایک الگ خوبی ہے۔
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ
وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹)
(پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور
بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔
احادیث مبارکہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم
ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے جنت میں محل بنایا جائے اور اس کے
درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو
اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک،
3/12، حدیث: 3215)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرنے
گا جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پھر دوبارہ
اعلان کرے گا کہ جس کی اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو
جائے پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے منادی کہے
گا ان کا جو لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گئے جس کا
اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں آدمی
کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)
عفوو درگزر کے عظیم واقعات:
حضرت انس
رضی اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر
اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر
پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آگئی وہ کہنے
لگا اللہ تعالیٰ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیں کہ اس میں سے کچھ مجھے مل
جائے حضور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور
مسکرائے دیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے ہے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)
جنگ احد کے موقع پر عتبہ بن ابی وقاص نے آپ ﷺ کے
مبارک دندان اقدس کو شہید کر دیا اور عبد الله بن قمیہ نے چہرہ اقدس کو زحمی اور
خون سے آلودہ کر دیا مگر پیار ے ﷺ نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا کہ
اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ
لوگ مجھے نہیں جانتے ہیں۔ (شفاء، 1/105)
رسول اکرم کی پوری زندگی عفو و درگزر سے عبادت تھی
آپ کے بے مثال عفو و درگزر کا واقعہ ملاحظہ ہو چنانچہ تاجدار رسالت ﷺ کی شہزادی
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر ابو العاص نے غزوہ بدر کے بعد مدینہ منورہ
کے لئے روانہ کیا جب قریش مکہ کو ان کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت زینب
رضی اللہ عنہا کا پیچھا کیا حتی کہ مقام ذی طوی میں انہیں پالیا۔ھبار بن الاسود نے
زینب کو نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ اونٹ سے گر گئیں اور آپ کا حمل ساقط ہو گیا
لیکن پیارے
آقا ﷺ کے عفو و درگزر پر قربان جائیے میرے آقا نے اتنی بڑی اذیت پر پھر بھی ہبار بن
الاسود کو معاف کرتے ہوئے دولت ایمان سے نوازا۔
ام المؤمنین حضرت صفیہ کا عفو و درگزر: ام
المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی عفوو درگزر کی صفت بہت نمایاں تھی دوسروں کی
خطاؤں پر چشم پوشی کرنا اور معاف کرنا آپ کے اخلاق کا ایک درخشاں پہلو تھا چنانچہ
ایک دفعہ آپ کی باندی نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر
حضرت صفیہ کے بارے میں کوئی جھوٹی بات کہی بعد میں انہیں اس کا علم ہوا تو اس
باندی سے پوچھا تمہیں ایسا کرنے پر کس نے ابھارا؟ کہنے لگی شیطان نے اس پر آپ نے
عفو و در گزر کی قابل تقلید مثال قائم کی اور فرمایا جاؤ تم آزاد ہو۔ (الاصابۃ، 8/233)