عفو و درگزر سے  مراد معاف کرناسزا کو چھوڑ دینا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے ایک دم ایک بدوی یعنی عربی عرب شریف کے دیہاتی نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ اللہ پاک کے اخری نبی ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کے کنارے سے خراش آگئی وہ کہنے لگا اللہ پاک کا جو مال آپ ﷺ کے پاس ہے آپ ﷺ حکم دیجیے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث:3149)

ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں آپ ﷺ خاموش رہے اس نے پھر وہی سوال دہرایا آپ پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث: 1956) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:اس میں 70 کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے ختم غلطی ہو جائے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔(مراۃ المناجیح، 5/170)

جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام احمد، 7/71، حدیث:1926)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب کریم تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث: 8327)

رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرنا اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور وہ جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے وہ منادی یعنی اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

عفو و درگزر کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں:

سب سے پہلی رکاوٹ تکبر ہے تکبر کرنے والا شخص کسی کو معاف کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ معاف کرنے سے میری عزت میں کمی ہوگی حالانکہ معاف کرنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ پاک اس معاف کرنے والے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کریم کے لیے تواضع یعنی عاجزی کرے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

عفو و درگزر کی راہ میں آنے والی دوسری رکاوٹ غصہ ہے کہ بندہ اپنے غصے کی وجہ سے بھی لوگوں کو معاف کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتا اس لیے اسے چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کرے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔