قرآن پاک میں ہے: وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان: اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(پ7،المائدہ:87)

اس پوری آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم کی ایک جماعت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کے ہاں جمع ہوئی اور انہوں نے آپسں میں ترک دنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گےاور ہمشہ دن میں روزے رکھیں گےاور ساری رات عبادت الہی میں گزارا کریں گے بستر پر نہ لیٹیں گے اور گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے اور عورتوں سے جدا رہیں گے نیز خوشبو نہ لگائیں گے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔

(تفسیر قرطبی، المائدہ، تحت الآیۃ8، 156/3،الجزء السادس)

اگر اس آیت مبارکہ میں تھوڑا غور کیا جائے تو اس سے معلوم ہو گاکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعتدال اختیار کرو اور قرآن پاک میں جس چیز کا ذکر آئے وہ کوئی عام نہیں ہوتی۔اعتدال اور میانہ روی کی اہمیت کیا ہے؟اس کا اندازا ہم اپنی روز مرہ کی زندگی کے معاملات سے بھی لگا سکتے ہیں ۔

مثلا ڈرائیونگ کرنا ہمارے زندگی کے معاملات میں سے ہے۔ اگر گاڑی چلانے میں حد سے تیزی کریں گے تو ٹکرا جانے کا اندیشہ ہے اور اگر بالکل ہی آہستہ چلائیں گے تو عین ممکن ہے پیچھے سے آنے والی گاڑی ہم سے ٹکرا جائے، اگر ہم میانہ روی سے چلائیں تو حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ دین اسلام ایک ایسا دین ہے جو بالکل انسانی فطرت کے مطابق ہےاسی لئے اعتدال و میانہ روی کا حکم دیتا ہے، عبادت میں بھی اور دیگر معاملات میں بھی ۔عبادت میں میانہ روی کی مثال یہ حدیث مبارکہ ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھما فرماتی ہیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے۔ ایک خاتون ان کے پاس سے گزریں حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے تاجدار رسالت صلی الله عليه وسلم سے عرض کی: ان کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھرنہیں سوتیں۔ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نےارشاد فرمایا: رات بھر نہیں سوتیںاتنا عمل کیا کرو جتنا آسانی سے کر سکو۔ اللہ نہیں اکتائے گا تم اکتا جاؤ گے۔

حدیث پاک میں عبادت میں میانہ روی نہ کرنے کا نتیجہ اکتاہٹ بتایا گیا ہےاور اگر دنیاوی معاملات میں اعتدال نہ ہو تو دنیا کا نظام نہ چل سکے گا ۔