افراط و تفریط ،انتہا پسندی ،شدت اور بے
اعتدالی اُن خصوصیات میں شامل ہیں، جن کو
کبھی مفید اور پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا ہے، اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو
ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گا، اِسلام دینِ فطرت ہےاور اسی لیے اس کا دیا ہوا
نظامِ حیات نہایت مکمل،متوازن اور معتدل نظام ہے۔
نبی کریم صلی الله عليه وسلم جب منصبِ نبوت پر فائز ہوئےاور آپ صلی الله عليه وسلم کو دعوتِ حق کےاعلان کا حکم دیا گیا، تو آپ صلی الله عليه وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کو دینِ حق کی
جانب بلانا شروع کیا، لیکن اُس وقت عرب كے لوگ اس قدر بے راہ تھے اور
کفروشرک کی اتنی تاریکی میں تھے کہ حق کی روشنی میں ان کے لئے کشش نہ رہی تھی، انکی بے حسی نے ان کو اعلانِ حق پر بھی کان
دھرنے نہ دیا ، نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو معلوم تھا کہ دینِ حق کی یہ آخری دعوت
فیصلہ کُن ہے، جو اس دعوت کو قبول کرے گا
وہ رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو دین اسلام کے لئے اس قدر پریشان دیکھا تو فرمایا:
مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ
قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )
کسی آدمی کو اتنا کنجوس نہیں
ہونا چاہیے کہ اللہ
تعالیٰ کی عطا کی ہوئی دولت کو
کسی چیز میں خرچ ہی نہ کرے اور اپنی اپنے خاندان اور اپنے اعزاء کی جائز ضروریات بھی پوری نہ کرے اور اپنے آپ کو اور
اپنے متعلقین کو بلا وجہ تکلیف میں مبتلا رکھےاور نہ اتنا فراخ دست اور فضول خرچ
ہو کہ بے جا خرچ کرے ،نمودونمائش میں پیسہ ضائع کرے ، یہ دونوں طریقے میانہ روی کے
خلاف ہیں اور دونوں کا نتیجہ مایوسی اور تباہی ہے۔
بخل
کی عادت انسان کو اللہ تعالیٰ کی دی
ہوئی نعمتوں سے لُطف اندوز نہیں ہونے دیتی اور فضول خرچی سے بالآخر انسان تنگ دست ہو کر دوسروں کا محتاج ہو جاتا
ہے، اسی لئے اعتدال اور میانہ روی کی
تاکید فرمائی گئی ہے ۔
سورۃ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے:وَ الَّذِیْنَ
اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ
قَوَامًا(۶۷) ترجمہ
کنزالایمان:اور
وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال
پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)
دیکھئے کتنی صاف ہدایت ہےاور کس قدر وضاحت سے
سمجھا دیا گیا ہے کہ میانہ روی مؤمن کی صفت ہے، مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہےاور نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روکتا
ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسن خوبی سے گزارتا ہے
، نبی کریم صلی
الله عليه وسلم کی حیاتِ مبارکہ
ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے :
نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا :"اے مسلمانو! میانہ روی
اختیار کرو، کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے وہ کام سنْور جاتا
ہےاور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی وہ بگڑ جاتا ہے ، میانہ روی سب کے لیے ضروری
ہے اور ہر کام میں ضروری ہے ۔"(صحیح مسلم)
صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں
میانہ روی مفید نہیں ہے، بلکہ دینی
معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے اور ایک مکمل نظام ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے
اعتدالی سے جو ایک غیر ضروری فطری کیفیت ہے، اس سے بچنا چاہئے اور اس طرح زندگی
بسر کرنی چاہیے کہ جس میں حقوق اور فرائض کے درمیان توازن ہو، نہ اپنے فرائض کو
فراموش کیا جائے ، نہ ہی ان سے غفلت برتی جائے ، اللہ تعالیٰ سختی پسند نہیں فرماتا، اس نے اپنے دین کوآسان بنایا ہے، تاکہ لوگ سختی اور
شدّت سے گھبرا کر ترکِ دین پر مائل نہ
ہوں۔