اعتدال ومیانہ روی دین اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے جو اس کے ہر
معاملہ اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اعتدال و میانہ روی کا مطلب ہے: تمام
احکام وامور میں ایسی درمیان راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط یعنی نہ
شدت ہو اور نہ از حد کوتاہی۔ جب دین اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے جو اس کو تمام
ادیان سے ممتاز بناتی ہے تو لازمی طور پر امت مسلمہ کی خصوصیت بھی یہی
ہوگی کہ وہ عدل و اعتدال سے متصف اور افراط و تفریط سے مبرار ہے۔
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:-
1: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا
لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ
شَهِیْدًا ترجمہ
کنزالایمان: اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر
گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(پ2، البقرۃ: 143)
امام طبری رحمۃ الله علیہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے
فرمایا ہے : میں سمجھتا ہوں کہ الله نے اس امت کو’ امت وسط ‘ کا خطاب
اس لئے دیا کہ وہ دین میں میانہ روی اختیار کر تے ہیں، نہ تو ان کے یہاں نصاری
جیسا غلو ہے جنھوں نے رہبانیت کی دعوت دی اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں
انتہاپسندی پر مبنی باتیں کہیں ،اور نہ یہودیوں جیسی کوتاہیوں اور مجرمانہ حرکتوں
کا تصور ہے کہ اللہ کی کتاب میں تبدیلی پیدا کرڈالی ، ا نبیاء کا قتل کیا ،اپنے رب
پر جھوٹ باندھا اور اس کے ساتھ کفر اختیار کیا ؛ لہٰذا اللہ نے اس امت کا یہ وصف
اس لئے بیان کیا کہ الله کو اعتدال ومیانہ روی پسند ہے۔
اسلام نے نہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ
اختیار کرنے کی دعوت دی ہے، بلکہ غلو و تقصیر میں سے کسی ایک جانب جھک جانے سے
ڈرایا بھی ہے جیساکہ سورہ فاتحہ کی ان دعائیہ آیتوں سے واضح ہے جن کا ہمیں پوری
سورت کے ساتھ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ؛تاکہ نہ صرف
یہ کہ ہم بغیر کسی افراط و تفریط کے ہمیشہ راہ حق و اعتدال پر رہیں بلکہ اپنے رب
سے اس کی توفیق کے طالب بھی بنے رہیں۔
فرمان ربانی ہے: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠(۷) ترجمۂ کنزالایمان:راستہ اُن کا جن پر تُو نے
احسان کیا نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ (پ1، الفاتحہ:
6،7)
علمائے تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ ’المغضوب علیھم ‘سے
مراد یہودی ہیں اور ’الضالین ‘سے مراد نصاری ہیں، اور ان دونوں گروہوں کی کج روی کا اندازہ آپ نے امام طبری رحمۃ اللہ
علیہ کی باتوں سے لگا لیا ہو گا کہ وہ راہ استقامت سے ہٹ گئے تھے ۔ یہودیوں کی بڑی
گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے صحیح راستہ پر نہیں چلتے تھے، آیات الہی
میں اپنی خواہشات کے مطابق تحریف و اضافہ سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ نیکی کا حکم
نہیں دیتے تھے، برائیوں سے نہیں روکتے تھے اور حضرت عزیر علیہ السلام کو ’ابن
الله‘کہتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی
شان میں غلو کیا اور انہیں ’ابن اللہ‘ اور ’ثالث ثلاثة‘ یعنی اللہ کا بیٹا اور تین
خداؤں میں سے ایک قرار دیا ۔
یہود ونصاری کی غلو وتقصیر اور افراط وتفریط کے برعکس ہمارے
دین نے اعتدال کی راہ دکھائی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث
میں جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، ’’سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا‘‘( متفق علیہ) کی تعلیم دی۔’ قاربوا‘ کا مطلب ہے درمیانی
راستہ اپناؤ ،اور ’سدّدوا ‘کا مطلب ہے اس راستہ پر جم جائو اور استقامت اختیار
کرو۔یہی ہمارے دین کا قول واعتقاد ، عمل و عبادات اور معاملات وضروریات میں شیوہ
ہے ۔مثال کے طور پر عقیدے کے باب میں ہم یہ پاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنی مدح و تعریف میں حد سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ؛تاکہ اللہ کے ساتھ
شرک نہ واقع ہو جائے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
لَاتُطْرُوْنِی
کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابنَ مَرْیَمَ ،فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ،
فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ (بخاری)
(میری مدح سرائی میں غلو وانتہا پسندی سے کام نہ لو جیسا کہ
نصاری عیسی بن مریم کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ گئے،میں صرف ایک بندہ ہوں تو مجھے
الله کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
اسی طرح عبادات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے آپ کو مشقت و ہلاکت میں ڈالنے یا دنیا سے بے تعلقی اختیار کرلینے سے منع
فرمایا۔
عبادتوں میں میانہ روی کی تاکید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی بہت ساری حدیثوں سے ثابت ہے ، جن میں ایک مشہور متفق علیہ حدیث ہے: جس کا خلاصہ
ہے کہ تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادتوں کے بارے میں دریافت کر نے کے
لئے آپ کے گھر والوں کے پاس آئے ۔ جب انہیں تفصیل بتائی گئی تو انہوں نے اسے کم
خیال کیا اور کہا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ؟ لہٰذا ایک
نے ہمیشہ نماز پڑھنے کا، دوسرے نے مسلسل روزہ رکھنے کا اور تیسرے نے کبھی شادی نہ کرنے کا عہد
کیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے یوں تنبیہ فرمائی:
سن لو !الله کی قسم میں یقینا تم سب لوگوں سے زیادہ الله سے ڈرنے والا اور تقوی
اختیار کرنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، نماز
بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادی بھی کر تاہوں، جس نے ہماری
سنت سے بے رغبتی كى وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ہمارے دین اسلام نے اگرچہ آخرت کو مطمحِ نظر اور مقصد حیات
بنانے پر سعادت و کامرانی کا دار ومدار رکھا ہے لیکن اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ
دنیاوی زندگی کی استواری کے لئے جائز طریقوں سے مال واسباب کا حصول اور مباحات میں
اس کا خرچ تمہارا فطری حق ہے۔
فرمان الہٰی ہے:
وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ
نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ترجمۂ کنزالایمان: اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں
اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا۔(پ20، القصص: 77)
مال کے خرچ، کھانے پینے حتی کہ صدقہ وخیرات میں بھی حکم دیا
گیا ہے کہ نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی، الله پاک نے فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ
كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی
کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔(پ19،الفرقان:67)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: کھائو پیو پہنو
اور صدقہ کرو جب تک اس میں اسراف اور تکبر کی آمیزش نہ ہو ۔( سنن ابن ماجۃ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات تمام تر اعتدال
ومیانہ روی پر مبنی ہیں،چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات
یادوسرے امور سے۔ یہ عظیم ونمایاں خصوصیت اسی کا حصہ ہے جس سے دنیا کے تمام ادیان ومذاہب عاری ہیں اور
یہ ان خصوصیات و اوصاف میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے دین اسلام کو دنیا وآخرت میں
کامیابی کا و احد ذریعہ ہونے کا امتیازحاصل ہے۔الله پاک کا ارشاد ہے:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ترجمۂ
کنزالایمان: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔(پ3،آل عمران: 19)
اللہ پاک ہم سب کواپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی
توفیق عطافرمائےاور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والا بنائے۔