وسط کا لفظ افراط و تفریط سے پاک، بالکل "درمیان" کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے ، یعنی میانہ روی اور
اعتدال۔
اسلام
دنیا کا واحد مذہب ہے، جس کا سارا نظام مُعتدل ہے اور اس کے تمام امور اعتدال پر قائم ہیں، اس کے اعتقادات میں اعتدال، اعمال و عبادات میں
اعتدال، معاشرت و تمدن میں اعتدال، اقتصادیات وسیاسیات میں اعتدال، معاملات
و تعلیمات میں اعتدال ، غرض کہ حیاتِ انسانی کے تمام شعبوں اور ادوار میں اسلام نے
میانہ روی اور اعتدال کا درس دیا ہے، اور
یہ اسلام کا طُرہ امتیاز ہے۔
قرآن پاک میں اعتدال کا حکم :
قَالَ اللہُ تَعٰالٰی فیِ الْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ ! وَ
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ
ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال
پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)
تفسیر خزائن العرفان:"اسراف
معصیت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور تنگی کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالٰیکے مقرر کیے ہوئے حقوق ادا کرنے میں کمی کرے۔"
حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی حق کو منع کیا اس نے اقتار کیا یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ
کیا، اس نے اسراف کیا اور اس آیت میں ان
بندوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ جو اسراف و اِقتار کے دونوں مذمُوم
طریقوں سے بچتے ہیں۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں اعتدال کی اہمیت:
سید
السّادات، فخر ِموجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"دولت مندی میں میانہ روی
کتنی اچھی ہے اور تنگدستی میں میانہ روی کتنی اچھی ہےاور عبادت میں میانہ روی کتنی
اچھی ہے۔"
آقا
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مُشکبار ہے:"جو میانہ روی اختیار
کرے گا، وہ تنگ دست نہیں ہو گا۔
اعتدال پر قولِ بزرگان دین رَحِمَھُمُ اللہُ الْمُبِیْن :
"ہر
کام میں میانہ روی بہت سی تکالیف سے بچاؤ کا ڈھال ہے۔" ( حضرتِ شیخ سعدی)
اللہ کریم ہمیں اعتدال کی راہ اپناتے
ہوئے، زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم