اسلام ایسا پاکیزہ مذہب ہے جو دینی،اخلاقی اور معاشرتی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام گوشوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔اسلام نے میانہ روی کی تعلیم دے کر اس کے کثیر فوائد بیان فرمائے ہیں اور کسی بھی معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہونے کو قابل مذمت قرار دیا  ہے۔میانہ روی اور اعتدال پسندی دونوں مترادف الفاظ ہیں جس کے معنی افراط و تفریط کی درمیانی حالت ہے۔اگر ہم کھانے پینے،سونے جاگنے وغیرہ معمولات زندگی میں اعتدال پسندی کے عادی ہوں گے تو یہ اچھی عادت ہمارے لئے دنیا و آخرت میں مفید ثابت ہوگی۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 31 میں کھانے پینے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ: اور کھاؤ اور پیئو اور حد سے نہ بڑھو۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 29 میں خرچ کرنے کا یہ اصول دیا گیا کہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے۔اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کے ساتھ کیے جائیں۔اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ اعمال میں میانہ روی اختیار کرو اور اللہ کا قرب حاصل کرو۔(معجم اوسط،78/2،حدیث :2583)

معمولات زندگی اور اعتدال پسندی:

(1)عبادت میں میانہ روی:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے اور اس عبادت پر آخرت میں ملنے والے اَجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے لیکن عبادات میں فرائض و واجبات کے علاوہ نفلی عبادات کی ایسی کثرت جو ہمیں فرائض سے غافل کر دے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔مثلا کوئی دن رات صرف نفل نمازیں پڑھتا رہے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے طلب معاش ہی نہ کرے،یا اپنے بچوں کی دینی تربیت سے غفلت برتے،یا ماں باپ،بہن بھائی اور رشتہ داروں سے میل جول نہ رکھے تو آخرت میں ایسی نفلی عبادت کوئی فائدہ نہیں دے گی۔نفلی عبادت اگرچہ کم ہو لیکن ہمیشگی کے ساتھ ہو تو یہ اللہ پاک کو زیادہ پسند ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔(مسلم،حدیث: 782،ص394)

لہذا فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفلی نماز اور دیگر اعمال بھی کیجیئے مگر گھر اور معاشرے سے متعلق جو ذمہ داری آپ پر لازم ہے اسے بھی پورا کیجیے۔

(2)سونے میں میانہ روی:

نیند اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے سورہ النباء کی آیت نمبر 9 میں ہے کہ ہم نے تمہاری نیند کو آرام بنایا۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو بالکل فریش ہو جاتے ہیں،اگر ہم کئی راتوں کے جاگے ہوں تو جسمانی تھکاوٹ اور سستی کی وجہ سے کوئی کام ڈھنگ سےنہیں کیا جاتا۔لہذا نیند کے معاملے میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے ،ایسا بھی نہ ہو کہ دن رات سونے کے علاوہ کوئی کام نہ کریں اور نہ ایسا ہو کہ دن رات جاگ کر اپنے اوپر ظلم کریں بلکہ طبی نقطہ نظر پر عمل کرتے ہوئے جس عمر کے افراد کے لیے جتنے گھنٹے کی نیند ضروری ہے اسے پورا کریں۔کیونکہ نیند پوری نہیں ہوگی تو ملازم آفس میں کام نہیں کر سکے گا،اسٹوڈنٹ ٹیچر کی بات سمجھنے سے قاصر رہے گااور طبیعت میں چڑچڑا پن،غصہ جیسی بری عادات پیدا ہوجائیں گی جو کہ اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہیں۔اسی طرح اگر کوئی دن رات سوتا ہی رہے تو مشہور کہاوت ہے کہ"جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے"کے مصداق ایسا شخص اپنے بہت سے کام وقت پر نہیں کر سکتا، سو کر اپنا قیمتی وقت الگ ضائع کرتا ہے اور لوگوں میں سست،کاہل اور نیستی جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔لہذا ہمیں پرسکون زندگی گزارنے کے لیے نیند کے معاملے میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔

(3)خرچ میں میانہ روی:

امیر ہو یا غریب ہر ایک کو اپنی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،جس کے پاس جتنا پیسہ ہوتا ہے وہ اپنے معاملات میں اسی اعتبار سے خرچ کرتا ہے۔اسلام نے جس طرح مال کمانے کے احکام بیان فرمائے ہیں ایسے ہی مال خرچ کرنے کے آداب بتا کر اس میں میانہ روی کا حکم دیا ہے۔مال خرچ کرنے میں میانہ روی اسلام کے نزدیک اچھا عمل ہے جب کہ فضول خرچی اور کنجوسی برے اوصاف ہیں جو ایک مسلمان کی شان کے لائق نہیں،قرآن مجید نے مومن کی یہ شان بتائی ہے: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں،نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(پارہ 19،الفرقان: 67) لہذا مال خرچ کرتے وقت ایسی فضول خرچی بھی نہ کی جائے کہ بعد میں اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ بچے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے اور نہ ہی ایسا بخیل ہوں کہ جہاں اسلامی اور معاشرتی اعتبار سے خرچ کرنا ضروری ہو وہاں بھی خرچ نہ کریں بلکہ اعتدال کے ساتھ جہاں جتنا خرچ کرنا ضروری ہو اتنا ہی خرچ کریں۔حدیث پاک میں ہے :جو شخص اعتدال قائم رکھتا ہے،اللہ پاک اسے مالدار بنا دیتا ہے اور جو آدمی ضرورت سے زائد خرچ کرتا ہے اللہ پاک اسے فقیر کر دیتا ہے ۔ (کنز العمال،2/الجزء الثالث،ص22, حدیث 5434)

(4)کھانے پینے میں میانہ روی:

اللہ پاک نے ہمارے کھانے پینے کے لئے طرح طرح کی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں جن میں ہمارے لئے بے شمار فوائد ہیں،کھانا پینا ہمارے جسم کی ضرورت ہے۔اگر ہم کچھ دن کے لیے کھانا پینا ہی چھوڑ دیں تو کمزوری کے سبب فرض عبادات اور دیگر معاملات انجام دینے میں مشکل پیش آسکتی ہے حتی کہ جان بھی جا سکتی ہے۔لہذا توانائی اور صحت کو برقرار رکھنے کے لیے بقدر ضرورت کھانا پینا معیوب نہیں بلکہ یہ تو جسم کا حق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے نفلی روزے رکھنے والے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا: تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے (بخاری، ج 1،ص649،حدیث: 1975)

یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے سے تمہارا جسم کمزور ہو جائے گا (مراۃالمناجیح،ج3،ص188) معلوم ہوا کہ جسمانی طاقت اور قوت کے لیے کھانا پینا ضروری ہے اور بالکل چھوڑ دینا برا کام ہے۔ اسی طرح بہت زیادہ کھانا بھی مذموم فعل ہے،بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس نعرے "کھاؤ پیو! جان بناؤ"کی عملی تصویر نظر آتے ہیں اور کھاتے پیتے ذرا نہیں تھکتے۔ایسے لوگ بھی اسلامی تعلیمات اور معاشرتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

جس طرح کچھ نہ کھانا پینا جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح زیادہ کھانا بھی مضر صحت ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پیٹ بھر کر کھانے پینے سے بچو کیوں کہ یہ جسم کو خراب کرتا،بیماریاں پیدا کرتا اور نماز میں سستی لاتا ہےاور تم پر کھانے پینے میں میانہ روی لازم ہے کیونکہ اس سے جسم کی اصلاح ہوتی ہے اور فضول خرچی سے نجات ملتی ہے۔

(کنز العمال،138/15،حدیث 4170)

لہذا ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے تمام معاملات میں میانہ روی اختیار کریں تاکہ ہماری زندگی سکون و چین سے گزرے۔