میانہ روی کے معنی ہیں" درمیانی راستہ"،  اس سے مراد ہے زندگی گزارتے ہوئے تمام مُعاملات میں درمیانہ راستہ ہی اختیار کیا جائے، میانہ روی اعتدال پسندی ہےاور یہ زندگی گزارنے کا بہترین اُصول ہے، اللہ ربُّ العزت نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے: "اور میانہ چال چل"۔ ( پارہ 21 ، سورۃ لقمان، آیت نمبر19)

قرآن مجید کی روشنی میں میانہ روی:

اللہ ربُّ العزت اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۲۸) ترجمہ کنزالایمان:" اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف(آسانی)کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا۔ (پارہ 5، سورۃ النساء، آیت نمبر28)

حدیث مبارکہ کی روشنی میں میانہ روی:

عبادت میں میانہ روی کا حکم:

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد ِنبوی میں داخل ہوئے تو سُتُونوں کے درمیان ایک رسی کو بندھے ہوئے دیکھا تو اِستفسار فرمایا:"یہ رسی کیسی ہے؟" لوگوں نے عرض کی، " یہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدنا زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کی رسّی ہے، جب (رات کی نماز میں) تھک جاتی ہیں تو اسے تھام لیتی ہیں، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"نہیں!(اور)اس رسّی کو کھول دو، تم میں سے ہر شخص اپنی نشاط بھر( یعنی خوشی، تازگی اور مُسْتَعِدی کی مقدار رات کی)نماز پڑھے، جب تھک جائے تو (اس وقت) عبادت (نماز) سے بیٹھ جائے۔( اصلاح اعمال، جلد ا ول، صفحہ669)

بول چال میں میانہ روی کی تعلیم:

بول چال میں میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم بھی حدیثِ مبارکہ سے ملتی ہے، بِلا ضرورت گفتگو سے اِجتناب کرنے اور خاموشی اختیار کرنے کے بارے میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:" جس کی شاھد بخاری شریف کی یہ حدیثِ مبارکہ ہے۔ " جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے، اُسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش ر ہے ۔

( بخاری، جلد4، ص105، حدیث6018)

روزی کی تلاش میں میانہ روی:

آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے روزی کی تلاش میں میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:"دنیا کی طلب میں اِعتدال سے کام لو، اس لیے کہ ہر ایک کو وہ کچھ ضرور ملے گا، جو اس کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔"( صحیح مسلم، جلد1 ، حدیث1097)

مختلف اقوال:

اِمام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" ہمیشہ گوشت نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمانِ نصیحت ہے:"جو چالیس دن تک گوشت نہیں کھاتا، اُس کے اَخلاق بگڑ جاتے ہیں اور جو چالیس دن تک لگاتار گوشت کھاتا ہے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے ۔"

( اصلاح اعمال، ج 1 ، صفحہ نمبر659)

امیر ِاہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:"ہر کام میں اعتدال یعنی( میانہ روی) ہونا چاہیے۔"( 12 شوال، 1435ھ، مدنی مذاکرہ)