حضور پرنور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کی محبت اور عبادت کے شوق میں کثرت سے راتوں کو قیام کرتے تھےاور راتوں کی عبادت اس قدر شدت سے کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم پڑجاتا اور قدم مبارک سوج جا یا کرتے، اس پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان : اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔ (پ:١٦،طہ:٢)

اللہ پاک نے حکم دیا کہ اپنے نفس کو کچھ راحت د یجئے کہ اس کا بھی حق ہے ۔

ایک اور شانِ نزول کچھ اس طرح سے ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے شدید رنج و الم میں مبتلا رہتے اور دل مبارک انتہائی افسردہ رہتا، تو اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج وملال کی کوفت نہ اٹھائیں کیونکہ قرآن مجید آپ کی مشقت کے لیے نازل نہ کیا گیا ہے ۔

اس آیت میں اگرچہ کلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے ہے لیکن مقصود امتِ مسلمہ کو نصیحت کرنا ہے کہ زندگی کا پہیہ اعتدال سے چلانے میں ہی عافیت و آسانی ہے۔

اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہم جانتےہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرتِ کائنات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر چیز اور ہر نظام ایک معتدل انداز میں رواں دواں ہے ،کمی ہے نہ شدّت ۔ اسی طرح اسلام بھی میانہ روی اور اعتدال کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے ،کیونکہ شدّت پسندی وبےاعتدالی کوہرگز پسند نہیں کیا جاتا اور اسکے برعکس اعتدال و میانہ روی کو لازمی پسند کیا جاتا ہے اور جاتا رہے گا ۔ کامل ایمان والے بھی وہی ہیں جن کا نظامِ حیات اعتدال و میانہ روی کے اصولوں پر گامزن ہو گا۔جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے :

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنزالایمان : اور وہ کہ جو خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔ (پ١٩،الفرقان:٦٧)

کتنی وضاحت کے ساتھ فرمادیاگیا کہ رحمٰن کے بندے وہی ہیں جو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ تنگی بلکہ دونوں برے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حسین بناتے ہیں کہ اسراف یعنی فضول خرچی سے زندگی کا سکون اورچین برباد ہوجاتا ہے اور زندگی کا بیشتر وقت انہی معاملات کو سلجھانے میں لگ جاتا ہے اور زندگی کی راحت ختم ہوجاتی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : اسراف میں کوئی بھلائی نہیں ،تو دوسرے بزرگ نے فرمایا : بھلائی کے کام میں اسراف ہوتا ہی نہیں ۔

اسی طرح حد سے کم خرچ کرنا بخل کہلاتا ہے۔ بخل کی عادت انسان کو اللہ پاک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے سے محروم کر دیتی ہے ۔ مال کو جمع کرنے کی لالچ و ہوس انتہائی عجیب وغریب ہے کہ بے مقصد اپنے آپ کو مشکل حالات میں ڈالنا ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے :وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان : اور اپنا ہاتھ اپنی گریبان سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا(پ:١٥،بنی اسرائیل:٢٩)۔

اس آیت کا مقصدہی یہی ہے کہ انسان نہ توبالکل ہاتھ روک لے اور خرچ ہی نہ کرے یا ضروت سے کم کرے اور نہ ہی خرچ کرنے میں اتنا بڑھ جائے کہ پلّےکچھ بھی نہ بچے۔ اسی لیے اللہ پاک نے دینِ اسلام کو اسقدر آسان بنایا اوردرمیانی راہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا کہ لوگ دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار نہ کرلیں۔