غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور ہر انسان خطا کا پتلا ہے لیکن اس غلطی پر ڈٹ جانا یا اپنی غلطی کا انکار کر دینا شیطانی صفت ہے اپنی غلطی تسلیم کرنا اپنے آپ کو انسان ماننا اور منوانا ہے کیونکہ شیطان نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی جب شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس نے انکار کیا تو اللہ تعالی کے حکم کے باوجود وہ اپنے اس غلطی پر قائم رہا اور اپنی غلطی ماننے اور اللہ تعالی سے معافی مانگنے کے بجائے غرور اور تکبر میں مبتلا ہو کر مردود قرار پایا جب حضرت آدم علیہ السلام نے گندم کا دانہ کھا لیا اور اللہ تعالی نے انہیں جنت سے نکال دیا تو انہوں نےاپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالی سے معافی طلب کی اور روتے رہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کا غلطی کرنے کے بعد اس پر رنجیدہ ہونا اور معافی طلب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اپنی غلطیوں پر نادم ہونا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے حضرت آدم علیہ السلام اپنی غلطی پر شرمندہ ہو کر سرخرو ہوئے اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں دوبارہ جنت کا حقدار بنا دیا ہمیں بھی اپنی غلطیوں پر اڑنے کے بجائے انہیں تسلیم کرنا چاہیے اور اس شخص سے معافی مانگنی چاہیے جس کا ہم کسی بھی طرح کا نقصان کرنے کا سبب بنے ہیں چاہے وہ دل آزاری ہو یا کوئی اور نقصان ہو۔

اگر ہمیں اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ ہم سے یہ غلطی ہو گئی ہے تو ہمیں ابلیس کی طرح اپنی غلطی پر ڈٹ جانے کے بجائے نادم ہونا چاہیے اور اسے تسلیم کر لینا چاہیے اور اپنی غلطی کو صحیح کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اگر ہم اپنی غلطی کو صحیح سمجھ کر اس پر ثابت قدم رہیں گے تو ہم کبھی بھی دنیا اور دین میں اپنے صحیح مقام پر نہیں پہنچ سکیں گے بلکہ ہماری چھوٹی چھوٹی غلطیاں جنہیں ہم نظر انداز کرتے رہیں گے کسی بڑے خسارے کا سبب بن جائیں گی غلطی ہر انسان سے سرزد ہو جاتی ہے لیکن غلطی کا احساس اور اس پر نادم ہونا انسان کو معتبر بنا دیتا ہے۔

اپنی غلطی پر ڈٹ جانے کے چند اسباب ہیں، مثلا آپ کی انا، خودغرضی آپ کو اپنی غلطی ماننے اور معافی مانگنے پر آمادہ ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے اگر آپ غرور میں مبتلا ہیں یا آپ کا کوئی ذاتی مفاد ہے تو آپ اپنی غلطی پر قائم رہیں گے آپ اپنے مفاد کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے لیکن ذرا سوچیے کہ یہ کامیابی آپ کو دلی سکون اور سچی خوشی دے سکتی ہے؟ دوسری طرف آپ کی انا یہ بات گوارا نہیں کرتی کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کریں لیکن اپنے نفس کی اس خواہش کو پورا کرنا ہی آپ کی دوسری غلطی ہوگی کیونکہ اگر نفس قابو سے باہر ہو جائے تو وہ ہمیں گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور یوں ہم گناہوں کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں اپنی غلطی نہ ماننے کا ایک سبب بغض بھی ہوتا ہے اگر آپ کے دل میں کسی شخص کے لیے بغض ہے تو یہ بغض آپ کو اس کے سامنے اپنی غلطی ماننے نہیں دے گا اسی لیے اسلام میں دل میں بغض رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔

دوسری طرف اپنی غلطی سے انکاری ہونا معاشرے میں بھی بگاڑ کا سبب بنتا ہے اور اس سے دلوں میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور اپس میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنتا ہے جس کی اسلام میں سختی سے مخالفت کی گئی ہے بلکہ اسلام میں درگزر، محبت اور امن کا پیغام دیا گیا ہے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے آ پس میں محبت اور اتفاق پیدا ہوتا ہے جس کا ہمارا دین بھی تقاضہ کرتا ہے۔

کسی کا بتایا ہوا کام آپ کرنا بھول جائیں آپ کی وجہ سے کسی کو کوئی نقصان ہو جائے کسی کو آپ کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو معذرت کر لیجئے اور کوشش کیجئے کہ اپنے تمام غلطیوں کی دنیا ہی میں لوگوں سے معافی مانگ لیجئے ورنہ بروز حشر آپ کے نیک اعمال اس شخص کو دے دیے جائیں گے جس کی آپ نے ذرا سی بھی حق تلفی کی ہوگی اور اس وقت آپ کے پاس افسوس کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا آپ کے اعمال اس شخص کو مل جائیں گے اور آپ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔

اللہ پاک عاجزی کو پسند فرماتا ہے لہذا ہمیں عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لینی چاہیے تاکہ ہمارا یہ عمل ہمارے رب کو خوش کرنے کا باعث بن سکے معافی ہمیشہ دل سے مانگیے کہ ائندہ اس غلطی کو دہرانے کا ارادہ نہ ہو ورنہ دکھاوے کے لیے مانگی جانے والی معافی بھی بیکار جائے گی جو دنیا میں بھی آپ کا اعتبار کھودے گی اور آخرت میں بھی آپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے ہم اپنی غلطی پر ڈٹ کر اپنے سب سے بڑے دشمن شیطان کو خوش کرتے ہیں جبکہ ہمیں اپنے رب کی خوشنودی کا ہر لمحہ خیال رکھنا چاہیے جو کہ ہمارے لیے آخرت میں سرخروئی اور جنت میں جانے کا سبب بنے گا۔