آئیے سب سے پہلے مختصراً غلطی کے متعلق جانتے ہیں غلطی کے اُردو معنی: بھول چوک،خطا لغزش،عدم صحت،غلط بیانی،ناسمجھی،غلط فہمی،کسی امر یا شے کی حقیقت یا تہہ تک نہ پہنچنا۔

مختصراً تمہید: غلطی پر اڑ جانا حق بات کو قبول نہ کرنا ایک نہایت ہی برا اور قبیح عمل ہے انسان کا اپنی غلطی پر ڈٹ جانا نقصان کا باعث بن جاتا ہے اپنی غلطی مان کر اصلاح کرنے سے نہ صرف نقصان سے بچ جاتا ہے بلکہ بہتری کے راستے پر چل پڑتا ہے ہر انسان کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے ورنہ وقت گزرنے میں دیر نہیں لگتی۔

اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی اپنی تفسیر نور العرفان میں پھر ہٹ پر جمتا ہے کے تحت فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

جس طرح قرآن پاک میں غلطی پر ڈٹ جانے والے کے لیے وعید ہے اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس متعلق بیان ہوا ہے۔

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت وبربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

ہم انسان ہیں ہمارے اندر بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں انہی میں سے ایک خامی جو آجکل بہت زیادہ ہو رہی ہے وہ غلطی پر اڑ جانا ہے۔شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ مسلمان آپس میں بھائی چارگی اور محبت کے ساتھ رہے وہ انسان کو طرح طرح سے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے۔ غلطی پر ڈٹ جانا اور غلطی قبول نہ کرنا بہت برا عمل ہے اس کے بہت سے نقصانات ہیں آئیے ان میں سے چند جان لیتے ہیں۔

غلطی قبول نہ کرنے والا اکثر اوقات دوسروں کے حق بھی تلف کرتا ہے، غلطی پر اڑ جانے والے کو لوگ پسند نہیں کرتے، غلطی پر اڑنے حق بات کو قبول نہ کرنے والا تکبر میں پڑ جاتا ہے، غلطی پر ڈٹے رہنے والا جھگڑے سے نہیں بچ سکتا، غلطی پر ڈٹے رہنے والا لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوتا ہے اور بعض اوقات اس وجہ سے رشتوں میں دراڑیں بھی پڑ جاتی ہے۔

غلطی پر ڈٹ جانا اور حق بات قبول نہ کرنا فضول بحث و مباحثہ میں پڑنے کی وجہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دیکھا جائے تو غلطی قبول کر کے معافی مانگ کر آگے بڑھنے والا بہت عزت پاتا ہے آئیے غلطی کو قبول کرنے کے چند فوائد جان لیتی ہیں تاکہ ہمارا بھی غلطی مان کر معافی مانگنے کا ذہن بنے:

غلطی مان کر معافی مانگنے والے کو لوگ پسند کرتے ہیں، غلطی ماننا اور حق بات کو قبول کرنا عاجزی کی علامت ہے، معاف کرنا بڑے ظرف کی بات ہوتی ہے اور کامیاب انسان بھی وہی ہے جو غلطی مان کر حق بات کو قبول کر کے آگے بڑھ جائے، غلطی ماننے والے کی قدر و منزلت لوگوں کی نظر میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

جس بھی خامی کو ہمیں اپنے اندر سے دور کرنا ہو پہلے اس کے پیدا ہونے کے اسباب کے متعلق جاننا چاہیے تاکہ اس بیماری کو جڑ سے ختم کیا جا سکے آئیے اصرار باطل کے چند اسباب جان لیتی ہیں۔

اصرار باطل کاپہلا سبب تکبر ہے، اصرارِ باطل کادوسراسبب بغض و کینہ ہے، اصرارِ باطل کاتیسرا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے، اصرارِ باطل کاچوتھاسبب طلب شہرت و ناموری ہے اس کے علاوہ اطاعت الٰہی کو ترک کر دینا اور بھی بہت سے اسباب ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان اسباب کو پہلے ختم کریں۔

اپنی غلطی مان لیجیئے: انسان خطا اور بھول کا مرکب ہے لہٰذا جب بھی کوئی آپ کی کسی غلطی کی نشاندہی کرے اپنی غلطی مان لیجئے چاہے وہ عمر، تجربے اور رتبے میں آپ سے کم ہی کیوں نہ ہو۔

غلطی کا اعتراف: جلیل القدر محدث امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ جب نو عمر طالب علم تھے تو ایک دن حضرت نا امام انباری علیہ رحمۃ اللہ الباری کی درسگاہ میں حاضر ہوئے۔ حدیث لکھوانے میں امام انباری نے ایک راوی کے نام میں غلطی کی، امام دار قطنی کمال ادب کے سبب امام انباری کو تو ٹوک نہیں سکے مگر ان کے مستملی کو جو ان کی آواز شاگردوں تک پہنچاتا تھا اس غلطی سے آگاہ کر دیا۔ جب دوسرے جمعہ کو امام دار قطنی پھر مجلس درس میں گئے تو امام انباری کا جوش حق پسندی اور بے نفسی کا عالم دیکھئے کہ انہوں نے بھری مجلس کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اُس روز فلاں نام میں مجھ سے غلطی ہوگئی تھی تو اس نوجوان طالب علم نے مجھ کو آگاہ کر دیا۔ (تاریخ بغداد، 3/400)

امیرِ اہلسنّت کا انداز: شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے میں ایسے عظیم الشان اوصاف و کمالات سے نوازا ہے کہ فی زمانہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر ہونے والے مدنی مذاکرات میں اسلامی بھائی مختلف قسم کے مثلاً عقائد و اعمال، فضائل و مناقب، شریعت و طریقت، تاریخ وسیرت، سائنس وطب، اخلاقیات و اسلامی معلومات، معاشی و معاشرتی و تنظیمی معاملات اور دیگر بہت سے موضوعات کے متعلق سوالات کرتے ہیں اور شیخ طریقت امیر اہلسنّت انہیں حکمت آموز و عشق رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات سے نوازتے ہیں۔ علم کا سمندر ہونے کے باوجود آپ آغاز میں شرکائے مدنی مذاکرہ سے کچھ اس طرح عاجزی بھرے الفاظ ارشاد فرماتے ہیں: آپ سوالات کیجئے، مگر ہر سوال کا جواب وہ بھی بالصواب (یعنی درست) دے پاؤں، ضروری نہیں، معلوم ہوا تو عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگر مجھے بھول کرتا پائیں تو فوراً میری اصلاح فرمائیں، مجھے اپنے موقف پر بےجا اڑتا ہوا نہیں، ان شاء اللہ شکریہ کے ساتھ رجوع کرتا پائیں گے۔

اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو! آمین

ہمارے بزرگانِ دین کا اتنا پیارا انداز تھا کہ وہ کسی کی غلطی پر اس کو معاف فرما دیتے تھے اللہ پاک ہمیں بھی غلطی قبول کر کے اس سے درس حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین