غلطی پر اڑ جانے کی تعریف: نصیحت
قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق
کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (1)
ہم انسان ہیں اور ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہو جاتی
ہیں لیکن ہمیں ان غلطیوں پر نہیں اڑنا چاہیے اسلام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہمیں اپنی
غلطیوں کو قبول کرنا چاہیے ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور ان کو درست کرنے کی کوشش کرنی
چاہیے ہمیں غلطی کے بعد توبہ اور اصلاح کی راہ تھامنی چاہیے غلطیوں سے سیکھنا اور بہتر
بننے کی کوشش کرنا ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ
اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ
تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ
یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25،
الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی
ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے
ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی
خوشخبری سناؤ۔
مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی
اپنی تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے
والی آڑ ہیں۔(3)
حدیث مبارکہ میں ہے: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو
نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بربادی
ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (4)
ایک مقام پر پیغمبر محمد ﷺ نے فرمایا: تمام بنی آدم
خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (5) یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ہر انسان
غلطیاں کرتا ہے، مگر جو لوگ اپنی غلطیوں سے توبہ کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک بہترین
ہیں۔
اللہ ہمیں اصرار باطل سے بچائے اور نیکیوں پر ثابت قدمی
عطا فرمائے۔ آمین
حوالہ جات:
1۔
باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ 157
2۔پارہ
25 الجاثیہ آیت نمبر 7،8
3۔
تفسیر نور العرفان، ص 796
4۔
مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062
5۔
مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062