اصرار باطل کی تعریف: نصیحت
قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق
کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔
آیت مبارکہ: اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ
اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ
تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ
یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25،
الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی
ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے
ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی
خوشخبری سناؤ۔
مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی
ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے
لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی
ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062) یہ نہایت ہی
مذموم، قبیح اور حرام فعل ہے اس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔
ایک بات یہ بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کی جب غلطی ثابت
ہو جائے تو عقلمند اپنے آپکو درست کر لیتا یعنی اِصلاح کر لیتا ہے اور جاہل ضد پہ اڑ
جااتاہے۔
اصرارِ باطل کا ایک سبب بغض و کینہ ہے اسی سبب سے بندہ
حق قبول کرنےمیں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔
اسکا علاج یہ ہے کہ بندہ بزرگانِ دین کی سیرتِ طیبہ
کے اِس پہلو کو مدِنظر رکھے کی بزرگانِ دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے؟
بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے ؟
نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بغض و کینے سے پاک رکھنے
کی کوشش کرتے۔
ہمیں بھی چاہیے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے
تو اپنی غلطی قبول کر کے اپنی اصلاح کر لیں نہ کہ اپنی غلطی پر ڈٹ جائیں۔
اللہ پاک ہم سب کی گناہوں سے حفاظت فرمائے اور نیکیاں
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین